قدر ت اللہ شہاب نے اپنی کتاب شہاب نامہ میں جس طرح اپنی زندگی کے حالات وواقعات کو جس دلچسپ پیرائے میں قلمبند کیا ہے، قاری انہیں پڑھتا ہی جاتا ہے، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے ملازم علی بخش سے ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں نے عزم کر رکھا تھا کہ میں خود علامہ اقبال کے ملازم علی بخش سے حضرت علامہ کے بارے میں کوئی سوال نہیں کرونگا اگر واقعی وہ علی بخش کی زندگی کا ایک جزو ہیں تو یہ جوہر خود بخود عشق اور مشک کی طرح ظاہر ہو کے رہے گا میری توقع پوری ہوتی ہے اور تھوڑی سی پریشان کن خاموشی کے بعد علی بخش مجھے یوں گھورنے لگتا ہے کہ یہ عجیب شخص ہے جو ڈاکٹر صاحب کی کوئی بات نہیں کرتا شیخو پورہ سے گزرتے ہوئے علی بخش کو یاد آتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک بار یہاں بھی آئے تھے یہاں پر ایک مسلمان تحصیلدار تھے جو ڈاکٹر صاحب کے پکے مرید تھے انہوں نے دعوت دی تھی ڈاکٹرصاحب کو پلاؤ اور سیخی کباب بہت پسند تھے آموں کا بھی بڑا شوق تھا وفات سے کوئی چھ برس پہلے جب ان کا گلا پہلی بار بیٹھا توکھانا پینا بہت کم ہوگیا۔
علی بخش کا ذہن بڑی تیزی سے اپنے مرکز کے گرد گھوم رہا ہے اور وہ بڑی سادگی سے ڈاکٹر صاحب کی باتیں سناتا جاتا ہے ان باتوں میں قصوں اور کہانیوں کا رنگ نہیں بلکہ ایک نشے کی سی کیفیت ہے جب تک علی بخش کا یہ نشہ پورانہیں ہوتا غالباً اسے ذہنی اور روحانی تسکین نہیں ملتی علی بخش کا موڈ بدلنے کے لئے میں بھی اس سے ایک سوال کر ہی بیٹھتا ہوں حاجی صاحب کیا آپ کو ڈاکٹر صاحب کے کچھ شعر یاد ہیں؟ علی بخش ہنس کرٹالتا ہے میں تو ان پڑھ جاہل ہوں مجھے ان باتوں کی بھلا کیا عقل‘میں نہیں مانتا؟ میں نے اصرار کیا آپ کو ضرور کچھ یاد ہوگاکبھی اے حکیکت منتجر والا کچھ کچھ یاد ہے ڈاکٹر صاحب اس کو خود بھی بہت کنگنایا کرتے تھے‘ڈاکٹر صاحب بڑے درویش آدمی تھے گھر کے خرچ کا حساب کتاب میرے پاس رہتا تھا میں بھی بڑی کفایت سے کام لیتا تھا انکا پیسہ ضائع کرنے سے مجھے بڑی تکلیف ہوتی تھی اکثر اوقات ریل کے سفر کے دوران میں کئی کئی سٹیشن بھوکا رہتا تھا کیونکہ وہاں روٹی مہنگی ملتی تھی لیکن ڈاکٹر صاحب ناراض ہو جاتے تھے کہاکرتے تھے علی بخش انسان کو ہمیشہ وقت کی ضرورت کے مطابق چلنا چاہئے خواہ مخواہ ایسے ہی بھوکے نہ رہاکرو۔ایک مقام پر وہ رقم طراز ہیں کہ میں نے اپنے ضلع کا چارج تو بعد میں سنبھالا سب سے پہلے دفتر کے ناظر نے بہ نفس نفیس خود میرا چارج لے لیا۔
ناظر صاحب سے پہلے ملاقات کچھ غیر رسمی طور پر ہوئی۔ مجھ سے زیادہ انہوں نے میرے سامان کا جائزہ لیا میرے ساتھ محض ایک سوٹ کیس اور ایک بستر بند کو دیکھ کر وہ قدرے مایوس ہو گئے۔ ضابطہ کی رو سے ڈپٹی کمشنر کی آمد سے پہلے ان کے بیرے او ر خانساماں کو آنا چاہئے اس کے بعد ان کے سامان کی ویگن اور موٹر کار آنی چاہئے پھر صاحب بہادر خود تشریف لائیں اور ان کے جلو میں اگر چند کتے اورکچھ گھوڑے بھی ہوں تو عین شایان شان ہے۔ناظر صاحب کی معیت میں ایک کار‘ دو بڑے ٹرک اور کوئی درجن بھروردی پوش لوگ تھے۔ کار انہوں نے شہر کے ایک رئیس سے طلب کی ہوئی تھی ٹرک مقامی ٹرانسپورٹ کمپنی نے پیش کئے تھے اور وردی پوش لوگ دفتروں کے چپڑاسی اور چوکیدار تھے سامان کی طرف سے مایوس ہو کر ناظر صاحب نے مجھے ہر دیگر کار لائقہ سے یاد فرمانے کی ہدایت کی‘ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ اگر مجھے کوئی ضرورت محسوس ہوئی تو ان کی خدمات سے فائدہ اٹھاؤں گا۔ ناظر صاحب کو رخصت کرکے میں ڈاک بنگلہ کے بیرے سے کچھ گرم پانی کی فرمائش کی۔
گرم پانی کا نام سن کریکایک دروازے کا پردہ ہلا‘ اور اس کے عقب سے ناظر صاحب نمودار ہوئے۔ حضور گرم پانی غسل خانہ میں تیار ہے۔ انہوں نے اعلان کیا۔منہ ہاتھ دھوکر میں نے ڈاک بنگلہ کے بیرے سے چاہئے مانگی۔ اس فرمائش پر ایک بار پھر ناظر صاحب نے کہا کہ حضور ڈائننگ روم میں چائے تیار ہے۔ ڈائننگ روم میں چائے کم تھی اور مرغ زیادہ تھے۔ ایک قاب میں مرغ مسلم تھا۔ دوسری میں مرغ روسٹ تھا ایک پلیٹ میں چکن سینڈ وچ تھے کچھ طشتریاں مٹھائیوں سے بھری رکھی تھیں۔ دائیں بائیں پیسٹری کے ڈبے تھے اور ان سب کے درمیان جملہ معترضہ کے طور پر کچھ چائے بھی موجود تھی۔ چائے کا سیٹ چمکدار سلور کا بنا ہوا تھا اور چائے دانی پر مالک کا نام اور پتہ نقش کیا ہوا تھا۔ایک دو بار میں نے کوشش کی کہ خانساماں کو بلا کے اسے اپنے کھانے کے متعلق کچھ ہدایات دے دوں‘ لیکن ہر بار میں اردلی نے مجھے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ حضور کا سارا بندوبست ناظر بابو کی تحویل میں ہے۔