ذرائع ابلاغ کو وقت کیساتھ ہر دور میں اہم کردار ادا کرنا ہوتا ہے پی ٹی وی کے سابق سربراہ آغا ناصر ایک ایسے دور کا ذکر کرتے ہیں جس میں میڈیا نے اپنا موثر کردار ادا کیا‘وہ لکھتے ہیں کہ 1969ء میں لاہور سے تبادلہ کے بعد میں راولپنڈی ٹی وی میں آگیا اس سٹیشن پر پروگراموں کی کوئی خاص ایکٹیوٹی نہیں تھی سو میں نے بہت سے پروگرام متعارف کرائے حکومت نے محسوس کیا کہ عوام کو اس دور کی یاد دلائی جائے جب1947ء میں سارے ہندوستان میں فسادات کی آگ بھڑک رہی تھی اور قتل وخون کا بازار گرم تھا مہاجروں کے لٹے پٹے قافلے مشرقی پنجاب‘بہار‘ یوپی اور دہلی سے ہجرت کرکے پاکستان آرہے تھے ان دنوں رات دن ہم سب سوچ بچار میں لگے رہتے کہ پاکستان کے رہنے والوں کو خاص طور پر نئی نسل کو یہ بتائیں کہ آگ اور خون کے کن دریاؤں سے گزر کر انکے بزرگ اور ساتھی یہاں پہنچے ہیں‘مجھے خیال آیاکیوں نا ہم ان واقعات اور حالات کو ایک بار پھر سے لوگوں کو دکھائیں جو تقسیم کے وقت پیش آئے تھے راولپنڈی میں میرا پسندیدہ پروڈیوسر شہزاد خلیل تھا اسے میں نے اپنا آئیڈیا سنایا جو کچھ اس طرح تھا پاکستان کے ایک ریلوے سٹیشن پر انڈیا سے آنیوالی ٹرین آتی ہے جو ہمیشہ پریشان حال اور غم زدہ لوگوں سے بھری ہوتی ہے روتی ہوئی عورتیں‘ بلکتے ہوئے بچے‘غم زدہ مرد مویشیوں کی طرح ریل کے ڈبوں میں بھرے ہوئے یہ انسان ہر دیکھنے والے کیلئے عبرت کا ایک نیا سبق لے کر آتے تھے‘ ہر ہفتے ان میں سے کسی ایک خاندان کی کہانی پیش کرینگے۔شہزاد کو یہ آئیڈیا بے حد پسند آیا اور جب میں نے پوچھا کہ تمہارے خیال میں اس سیریز کے سکرپٹ لکھنے کا کام کس کو دیں تو اس نے بلا تعامل جواب دیا۔
منوبھائی۔یہ سچ تھا ان سے بہتر یہ ڈرامے کوئی نہیں لکھ سکتا تھا لہٰذا اگلے روز انہیں بلوایا گیا اور پھر ہم تینوں نے اس منصوبے پر کام شروع کردیا منو بھائی سے میں اسوقت تک واقف نہیں تھا لیکن پہلی ہی ملاقات میں مجھے اندازہ ہوگیاکہ ہمارا انتخاب بالکل صحیح ہے سیریز کی پہلی قسط کی تیاری شروع ہوگئی لہٰذا منو بھائی نے ایسا درد مند اور دل اندوز ڈرامہ لکھا جو لاجواب تھا کہانی وہی تھی جو ہم نے طے کی تھی ایک لٹا ہوا خاندان ریلوے پلیٹ فارم پر اترتا جس خاندان کی کہانی بیان کی گئی تھی اس کے بزرگ رو روکر اپنی آپ بیتی سناتے رہیں تعلیم بالغاں‘ہمارے رائٹرخواجہ معین الدین کا انتہائی مقبول ڈرامہ ہے جو انہوں نے سٹیج کیلئے لکھا تھا اور خود ہی پیش کیا تھا 1970ء میں پاکستان ٹیلی ویژن سنٹر سے یہ کھیل نشر کیا تو میں نے اسکی ہدایت کاری کے فرائض انجام دیئے، بعد ازاں ایک ایک کرکے انکے تین معرکتہ الآراڈرامے لال قلعہ سے لالو کھیت‘مرزا غالب بند روڈ پر اور تعلیم بالغاں کو ٹیلی ویژن پر پیش کیا گیا ایک اور مقام پر آغا ناصر اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ جب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منعقد ہونیوالے عام انتخابات کے نتیجہ میں وجود میں آنیوالی پہلی قومی اسمبلی نے کام شروع کیا تو اسکے سامنے سب سے اہم مرحلہ نئے پاکستان کیلئے ایک جمہوری آئین کی تشکیل کاتھا لہٰذا بلا کسی توقف کے یہ کام شروع کردیاگیا اور جلدی جلدی قومی پارٹیوں کے لیڈروں نے ایک مسودہ تیار کرکے اسمبلی میں بحث کیلئے پیش کردیا۔
کئی مہینے اس مسودہ پر اسمبلی میں گفتگو ہوتی رہی اور ہر روز اخبارات مختلف نوعیت کی خبریں شائع کرنے لگے تبصرے اور کالم ریڈیو اور ٹی وی کے کرنٹ افیئر کے پروگرام اسی موضوع پر ہی ہوتے تھے‘ایک روز مجھے یونہی خیال آیا کہ آئین سازی اور حالات حاضرہ تو بہت اہم اور ضروری موضوع ہے جس پر ڈرامہ بھی لکھا جاسکتا ہے رفتہ رفتہ یہ خیال ایک واضح شکل اختیار کرتا گیا اور پھر میں نے منو بھائی کے ساتھ مل کر یہ ڈرامہ لکھا۔عنوان تھا ’رت بدل جائے گی‘۔یہ انتہائی Motivational موضوع تھا ڈرامہ کا پلاٹ ان سارے مسائل کا احاطہ کرتا تھا جو ملک کو درپیش تھے جو کردار ہم نے اس ڈرامے کیلئے تشکیل دیئے تھے وہ ایک قسم کے کیری کیچر تھے انہیں بغور دیکھنے والا ذرا کوشش کرکے پہچان سکتا تھا کہ کون سا کردار کس سیاسی لیڈر کا ہے غرض سب کچھ اس ڈرامہ میں تھا پروڈکشن کو بھی لوگوں نے سراہا اور جب یہ کھیل نشر ہوا تو سارے ملک میں دھوم مچ گئی لوگوں کو نہ صرف تفریح ملی بلکہ مستقبل کی امید بھی جاگ اٹھی راولپنڈی اسلام آباد ٹیلی ویژن سے میں نے سب سے پہلے ڈراموں کا ایک نیا سلسلہ پیش کرنے کا فیصلہ کیا ایک کھیل ایک فنکار کے زیر عنوان یہ سلسلہ وار ڈرامے پیش کئے گئے یہ پہلا کھیل تھا جو معروف انگریزی مصنف آر ایل اسٹون سن کی کہانی سے ماخوذ تھا‘میں بڑے اختصار کیساتھ دو ڈرامہ سیریز کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو پی ٹی وی کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار سمجھی جاتی رہیں گی خدا کی بستی اپنے انداز کا ایک واحد ڈرامہ سیریل تھا اس ڈرامہ کی تحریر وپیشکش کیلئے خاص اہتمام کیاگیا تھا ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں شوکت صدیقی کے علاوہ فیض احمد فیض‘یونس سعید اور چند اور مشہور لکھنے والے شامل تھے خدا کی بستی‘ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اس کے نشر ہونے کے وقت کراچی کی سڑکیں خالی ہوجاتی تھیں۔