مشرق وسطیٰ اور امریکہ کی عملی سیاست

امریکی میڈیا کے مطابق صدر بائیڈن نے نہ چاہتے ہوئے بھی سعودی عرب کا دورہ اسلئے کیا کہ انہیں تیل کی قیمت کم کرنے کیلئے اسکے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا انکے جدہ جانے سے پہلے ہی انکی ڈیموکریٹک پارٹی نے اس دورے کی مخالفت شروع کر دی تھی اسکی وجہ یہ تھی کہ صدر بائیڈن گذشتہ ڈیڑھ برس سے مسلسل سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی مذمت کر رہے تھے اب ایک ماہ پہلے جب وائٹ ہاؤس نے انکے دورے کا اعلان کیا تو انکے مخالفین نے کہا کہ جدہ میں انکی شہزادہ محمد بن سلیمان سے مصافحے کی تصویر امریکہ کے ہیومن رائٹس ایجنڈے کا استرداد ثابت ہو گی۔ امریکی میڈیا نے وائٹ ہاؤس کی توجہ اسطرف بھی مبذول کرائی کہ صدر بائیڈن اس دورے کے بعد سعودی عرب کے طرز حکمرانی پر تنقید نہ کر سکیں گے امریکہ سرد جنگ کے پچاس برسوں میں سوویت یونین کو آمریت قرار دیکر اسکی مذمت کرتارہا گذشتہ بیس برسوں میں چار امریکی صدور روس‘ چین‘ ایران اور شمالی کوریا کو آمریتیں کہہ کر انہیں ہدف تنقید بناتے رہے اس سیاق و سباق میں عرب حکمرانوں کا ذکر بھی کر دیا جاتا تھا صدر ٹرمپ کے دور میں اسرائیل‘ عرب امارات‘ بحرین اور مراکش کے مابین تجارتی معاہدے کے بعد عرب حکمرانوں کو مطلق العنان ہونے کے طعنے دینے بند کر دئے گئے مگر سعودی عرب پر امریکہ مسلسل جمال خشوگی کے قتل کی وجہ سے تنقید کرتا رہا اب عالمی معیشت کو درپیش خطرات کی نوعیت کیونکہ سنگین ہوتی جا رہی ہے اسلئے امریکہ کو نظریاتی سیاست ایکطرف رکھ کر Realpolitik کرا نا پڑ گئی ہے۔

 اس سے پہلے 1972میں صدر نکسن کا دورۂ چین بھی اسی عملی اور غیر نظریاتی سیاست کی ایک مثال تھا امریکہ اسوقت بھی کمیونزم اور سوشلزم کا سخت مخالف تھا اور اسی نظریاتی کشمکش کی وجہ سے سوویت یونین کیساتھ ایک طویل  جنگ میں الجھا ہوا تھا مگر Realpolitik کا تقاضہ یہ تھا کہ چین سے دوستی کر لی جائے اسکا ایک فائدہ یہ ہواکہ امریکہ کو ایک بڑے ملک کی حمایت حاصل ہو گئی اور دوسرا یہ کہ چین کے روس کیساتھ امریکہ مخالف اتحاد بنانے کے امکانات ختم ہو گئے اسکے بعد 2015 میں صدر براک اوباما کا ایران کیساتھ جوہری معاہدہ بھی Realpolitik کی ایک مثال تھا پھر ڈونلڈ ٹرمپ کی شمالی کوریا کے صدرکم جونگ ان کیساتھ دو ملا قاتیں بھی اسی طرز سیاست کے زمرے میں آتی ہیں Realpolitik کا لغوی مطلب سامنے کے حقائق اور مادی ضروریات سے سرو کار رکھنے والی عملی سیاست ہے اسمیں کسی نظریے‘ اخلاقی اصول یا آدرش کو اہمیت حاصل نہیں ہوتی۔ہفتے کے دن جدہ میں صدر بائیڈن نے نو مسلم ممالک کے سربراہوں سے خطاب کرتے ہوے کہا کہ ”ہم یہاں ایسا خلا نہیں چھوڑیں گے جسے چین‘ روس یا ایران بھر دے ہم اس خطے کو فعال امریکی قیادت مہیا کریں گے“

 ایک امریکی تجزیہ نگا ر نے اس ملاقات پر یہ تبصرہ کیا ہے کہ مڈل ایسٹ میں چین اور روس کے بڑھتے ہوے اثر رسوخ کو کم کرنے کیلئے صدر بائیڈن کا یہ Forced Dance with the dictators  نہایت ضروری تھا نیویارک ٹائمز کے Peter Baker نے لکھا ہے کہ In a room full of unelected autocrats and absolute monarchs he made a point of nudging them on human rights یعنی  غیر منتخب ڈکٹیٹروں اور مکمل بادشاہوں سے بھرے ہوئے کمرے میں صدر بائیڈن نے انسانی حقوق کی اہمیت کو بیان کیا اسی کمرے میں مصر کا صدر عبدل فتح السیسی بھی تھا جسکے ساتھ صدر امریکہ نے بعد میں ایک الگ ملاقات بھی کی ا س بات چیت کی تفصیل بتاتے ہوئے امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ صدر بائیڈن نے مصر کے صدر کا شکریہ ادا کیا کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کو قابو میں رکھنے کیلئے اسرائیل کی مدد کر رہا ہے صدر بائیڈن نے مصر کے اس تعاون کو Incredible assistance یعنی ناقابل یقین معاونت قرار دیا۔امریکہ کی خارجہ پالیسی کاایک بڑا تضاد اسوقت سامنے آیا جب صدر بائیڈن کے ویسٹ بینک کے دورے کے موقع پر فلسطینیوں نے شیریں ابو اقلح کی اسرائیلی فوجی کے ہاتھوں ہلاکت پر احتجاج کیا شیریں ابو اقلح ایک امریکی صحافی ہے جسکے والدین فلسطین سے جا کر امریکہ میں آباد ہوئے تھے صدر بائیڈن نے اسرائیل کے دورے کے دوران ایک امریکی شہری کی اسرائیلی فوجی کے ہاتھوں ہلاکت پر ایک لفظ تک نہیں کہاجب کہ اسی امریکی صدر نے جمال خشوگی کے قتل کو اپنی انتخابی مہم میں بڑے زورو شور سے انسانی حقوق کی پامالی کا عنوان دیا تھا۔

صدر بائیڈن نے یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب یوکرین جنگ ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی‘  مغربی ممالک پر کساد بازاری کا خوف طاری ہے‘  امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ افراط زر پر قابو پانے میں ناکام ہو چکی ہے‘  صدر بائیڈن کی مقبولیت کا گراف گر رہا ہے‘ یورپی ممالک اس خوف میں مبتلا ہیں کہ روس نے اگر گیس کی سپلائی بند کر دی تو سردیاں کیسے گزریں گی روس کو زر مبادلہ سے محروم کرنے کیلئے اس سے تیل نہیں خریدا جا رہا جسکی وجہ سے تیل کی قیمت گذشتہ چند دنوں میں کم ہونے کے باوجود بہت زیادہ ہے ان تمام مسائل کا ایک حل یہ ہے کہ سعودی عرب تیل کی پیداوار میں اضافہ کردے تاکہ ایک عالمی بحران کا سد باب کیا جا سکے، اس اعتبار سے صدر بائیڈن نے انسانی حقوق کی نظریاتی سیاست چھوڑ کر عملی سیاست کے بل بوتے پر اس دورے میں اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کر لئے ہیں۔