لائٹ ہاؤس

زندگی کے بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا تذکرہ کرنے کے لئے اگر دلچسپ اور حسین پیرائے کا سہارا لیا جائے تو ان کو پڑھنے کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے ایک مصنف کا کمال یہی ہوتا ہے کہ وہ الفاظ کا ایسا چناؤ کرے کہ عام نظر آنے والے واقعات بھی خاص بن جائیں اور معمول کا واقعہ بھی پڑھتے ہوئے قاری دلچسپی محسوس کرے کچھ اسی انداز میں مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد اپنی نشری تقاریر میں بیان کرتے ہیں کہ مجھے ایک بار لائٹ ہاؤس دیکھنے کا حسین اتفا ق ہوا  راتوں میں بحری جہازوں کو چٹانوں سے محفوظ یا باخبر رکھنے کے لئے سمندر میں خطرناک جگہوں پر لائٹ ہاؤس بنائے جاتے ہیں اور ان لائٹ ہاؤسز میں جو دیئے رکھے جاتے ہیں ان کے ارد گرد ایسا شیشہ لگا ہوتا ہے جو روشنی کو کئی سمت میں منعکس کرتا ہے یا آپ کہہ لیں کہ وہ شیشہ محدب (یہ گول اور بیچ سے ابھرا ہوا شیشہ ہوتا ہے)طرز کا ہوتا ہے خواتین وحضرات‘آپ یقین کریں کہ وہ لائٹ ہاؤس میں لگا چھوٹا سا دیا مٹی کے تیل یا کیروسین آئل سے جلتا ہے اور ان لائٹ ہاؤسز میں اسے جلانے کے لئے ملازم رکھا جاتا ہے جو اپنی ذمہ داری سے اسے سرشام روشن کردیتا ہے تاکہ جہاز بھٹک کر بھول سے کشی چٹان سے نہ ٹکرا جائیں وہ ایک چھنگلی جتنا دیا دیکھیں کتنے لوگوں کو درست سمت عطا کرتا ہے۔

 اس مٹی کے تیل کا موٹی بتی والا’دیوا‘ جو نہایت کم روشنی رکھتا ہے محدب شیشے کے باعث اس کی روشنی پچیس کلومیٹر تک دیکھی جاسکتی ہے وہ دیا ایک ایسی گھومنے والی چرخی پر ہوتا ہے جو مسلسل گھومتی رہتی ہے اور اس کے گھومنے سے اس کے گرد لگا محدب شیشہ پھر اس تھوڑی سی روشنی کی میلوں دور تک لے جاتا ہے اور یہ Reflect کرنے والے شیشوں کی بدولت ممکن ہوتا ہے اب جب میں اس ’دیوے‘کو دیکھ چکا ہوں اور آج کے وقت سے موازنہ نہ کرتا ہوں جیسے باہر والوں نے انفارمیشن کی صدی قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی میں علم اس طرح سے پھیلے گا تو بہت ساری باتیں ایک ایک کرکے میرے ذہن میں گزرتی ہیں کہ یہ علم کی روشنی کہاں سے کہاں تک پہنچے گی اور کیسے پہنچ گئی؟ یہ ساری بات میرے سامنے آگئی میرا یہ جی چاہتا ہے کہ میں حسد میں سے نکلوں خواتین میں بہت حسد ہوتا ہے وہ کسی اور خاتون کا اپنے گھر کے قریب سے گزرنا بھی برداشت نہیں کرسکتیں  لیکن جب یہ ضرورت سے بڑھ جاتا ہے تو خطرناک صورت حال اختیار کرجاتا ہے اور حد سے بڑھ جانے سے کنجوسی آجاتی ہے پھر اس کا قلع قمع کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ سراج دین نامی ایک مزدور تھا۔

 آج سے بہت سال پہلے کی بات ہے میں اپنا دفتر بنوا رہا تھا، جب مزدور کی دیہاڑی تیس روپے روزانہ ہوتی تھی، سراج چپس گھسانے کا کام جانتا تھا، بہت ذہین اور خوبصورت آدمی تھا، اچھی بات کرتا تھا اور بہت کم گو تھا‘ خوب صورت بات کرتا تھا اور لوگ اس کو 30 روپے دیہاڑی کے بجائے50 روپے دیتے تھے، کیونکہ وہ اپنے فن کا ماہر تھا، وہ اپنے فن پر پوری استقامت کے ساتھ حاوی تھا۔ایک بہت اچھا دن تھا 25، 26 دسمبر کی بات ہے، دھوپ بہت اچھی نکلی ہوئی تھی‘ میں جب دفتر آیا تو سب لوگ کام کررہے تھے‘ کام بہت تیزی کے ساتھ ہو رہا تھا میں نے ٹھیکیدار سے پوچھا سراج نہیں آیا؟ اس نے کہا، نہیں آیا‘ میں نے کہا، کیوں نہیں آیا؟ کہنے لگے کوئی پتہ نہیں‘ میں غصے میں سراج کے گھر گیا، میں نے کہا‘ تو مجھے بتا تو آیا کیوں نہیں‘ اس نے کہا، کوئی خاص وجہ نہیں تھی‘ میں نے کہا، کیوں نہیں آیا، تمہیں ساری وضاحت دینا پڑے گی‘ اس نے کہا بات یہ ہے کہ یہ جو کنستر ہے ناں جی مٹی ڈال کر نرگس کا ایک پودا لگایا تھا کل شام، جب میں گھر آیا ہوں تو اس میں ایک پھول کھلا ہوا تھا تو مجھے بڑا اچھا لگا‘ دیکھیں ہمارے گھر میں آج ایک نرگس کا پھول ہے‘ یہ میں آپ کو دیتاہوں، اس کی خوشبو دیکھیں کتنی اچھی ہے‘ میں تمہارے اس پھول کو بالکل قبول نہیں کرتا‘ میں تمہارے اس کنستر کو باہر پھینکوادوں گا۔

 تم کیا فضول بات کیلئے یہاں رہ گئے، تم کو آنا چاہیے تھا‘ ساتھ ہی کہنے لگا، سرجی جب میں گھر آیا ہوں تو میری بیوی نے مجھے کہا کاکا چلنے لگ گیا ہے، پہلے رڑھتا، گھٹنوں چلتا تھا‘ آج پہلا دن ہے کہ وہ ڈگ مگ ڈولے چلا ہے‘ میں نے کہا، وہ تو سوگیا ہے‘ کہنے لگی ہاں‘ میں نے کہا، اس کو جگاؤ میں تو اس کو چلتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں‘ اس نے کہا کمال کرتے ہو کاکا تو سویا ہوا ہے‘ میں اس کو کیسے جگاؤں‘ کہنے لگا، صبح اٹھتے ہی پہلا کام میں نے یہ کیا‘ میں ادھر بیٹھ گیا،بیچ میں اپنا بچہ چھوڑ دیا، چھوٹا بچہ تھپ تھپ کرتا کبھی ادھر جاتا تو کبھی ادھر جاتا تھا‘ صاحب زندگی روشن ہوگئی‘ کنستر میں پھول کھلا تھا، چھوٹا بچہ تھپ تھپ کرتا ادھر ادھر جاتا تھا، سرجی! ہمیشہ آج کا دن دھندلا دن ہوتاہے لیکن آج بڑا خوبصورت دھوپ والا دن تھا‘ اتنا خوب صورت دن پچاس روپے میں تو نہیں بیچا جاسکتا‘ سر میں کل آجاؤں گا، رات بھی لگا دوں گا آپ کہیں گے تو، اور آدھی چھٹی بھی نہیں کروں گا لیکن اس خوبصورت دن کو آپ رہنے دیں‘ اتنا سستا نہیں بیچا جاسکتا‘ میں نے کہا، پانچ سو روپے کا بیچتے ہو‘ کہنے لگا، نہیں‘ وہ تو حال پر راضی تھا۔