پچھلے دنوں ہمارے ہاں بہت بارشیں ہوئیں‘ بارشیں جہاں خوشیوں کا پیغام لے کر آئیں وہاں کچھ مشکلات میں بھی اضافہ ہوا‘ ہمارے گھر میں ایک راستہ جو چھوٹے دروازے سے ڈرائنگ روم میں کھلتا ہے اور پھر اس سے ہم اپنے گھر کے صحن میں داخل ہوتے ہیں‘ بارشوں کی وجہ سے وہ چھوٹا دروازہ کھول دیا گیا‘ تاکہ آنے جانے میں آسانی رہے‘ آسانی تو ہوئی لیکن اس میں ایک پیچیدگی پیدا ہوگئی‘ وہ یہ کہ باہر سے جو جوتے آتے تھے وہ کیچڑ سے لتھڑے ہوئے ہوتے تھے اور باوجود کوشش کے اور انہیں صاف کرنے کے‘ کیچڑ تو اندر آہی جاتا تھا اور اس سے سارا قالین خراب ہوجاتا تھا‘ میں چونکہ اب تیزی سے بوڑھا ہورہا ہوں اور بوڑھے آدمی میں کنٹرول کی صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے تو میں چیختا چلاتا تھا اور ہر اندر آنے والے سے کہتا کہ جوتا اتار کر آؤ اور اسے پہننے کے بجائے ہاتھ میں پکڑ کر آؤ‘ اس سے میرے پوتے اور پوتیاں بہت حیران ہوتے تھے کہ اس جوتے کا فائدہ کیا‘ جو گھر کے دروازے پر پہنچ کر اتارا جائے اور ہاتھ میں پکڑ کر گھر میں داخل ہوا جائے‘ وہ بیچارے کوئی جواز تو پیش نہیں کرتے تھے لیکن جوتے اتارتے بھی نہیں تھے‘ جس سے میری طبیعت میں تلخی اور سختی بڑھتی گئی اور میں سوچتا تھا کہ یہ مسئلہ صرف اسی طرح سے ہی حل ہوسکتا ہے جس طرح میں سوچتا ہوں‘ میری بہو نے کوئی اعتراض تو مجھ پر نہیں کیا اور نہ ہی اس نے مجھے کوئی جواب دیا‘ وہ شام کو بازار گئی اور اس نے دو میٹ خریدے‘ ایک تاروں کا بنا ہوا اور دوسرا موٹا بالوں والا‘ اب جب تاروں کے میٹ سے پاؤں رگڑے جاتے تو وہ ”رندے“ کی طرح صاف کردیتا اور پھر موٹے بالوں کا موٹا دبیز میٹ مزید صفائی کردیتا تھا‘ یہ بعد میں رکھا گیا تھا‘ جب میں نے یہ عمل دیکھا اور میں اس پر غور کرتا رہا‘ تو مجھے کافی شرمندگی ہوئی کہ میں جو اپنی دانش کے زور پر اپنے علم اور عمر کے تجربے پر بات کہہ رہا تھا وہ اتنی ٹھیک نہیں تھی اور اس لڑکی (بہو) نے اپنا آپ اپلائی کرکے اس مسئلے کا حل نکال دیا اور ہمارے درمیان کوئی جھگڑا بھی نہیں ہوا‘ مجھے خیال آیا کہ انسان اپنے آپ میں تبدیلی پیدا کرنے کے لئے دوسروں پر تنقید زیادہ کرتا ہے اور خود میں تبدیلی نہیں کرتا۔ایک اور مقام پر اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ ہم بڑی دیر سے ایک عجیب طرح کے عذاب میں مبتلا ہیں ہمیں بار بار اس بات کا سندیسہ دیا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں نشے کی عادت بہت بڑھ گئی ہے اور ڈاکٹر ووالدین دونوں ہی بڑے فکر مند ہیں اور والدین دانشور لوگوں سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ اس کے قلع قمع کے لئے کچھ کام کیا جائے‘ میں نے بھی ایک سوسائٹی کے ساتھ مل کر اس مسئلے کا مطالعہ کیا‘اس تحقیق کے دوران جو میں نے ایک عجیب چیز نوٹ کی وہ یہ کہ ایک اور قسم کا نشہ بھی ہے اور آپ مجھے اس بات کی اجازت دیں کہ میں اسے نشہ کہوں کیونکہ وہ ہماری زندگیوں پر بہت شدت کے ساتھ اثر انداز ہے وہ نشہ سٹریس کا ہے اس نشے کو ہم نے وطیرہ بنا لیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک ہم سٹریس نہیں لیں گے اس وقت تک ہم نارمل زندگی بسر نہیں کر سکتے آپ محسوس کریں گے کہ اس نشے کو ترک کرنے کی اس نشے سے بھی زیادہ ضرورت ہے میں ایک بار کچہری گیا‘ ایک چھوٹا سا کام تھا اورمجھے باقاعدگی سے دو تین دن وہاں جانا پڑا۔ کئی سیڑھیاں چڑھ اور اتر کر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ بہت سے میری عمر سے بھی زیادہ عمر کے بابے کچہری میں بنچوں کے اوپر بیٹھے ہوئے ہیں اور مقدمے لڑ رہے ہیں‘میں نے اپنی عادت کے مطابق ان سے پوچھا کہ آپ کیسے آئے ہیں کہنے لگے جی ہمارا مقدمہ چل رہا ہے‘ میں نے کہا کب سے چل رہا ہے ایک بابے نے کہا کہ پاکستان بننے سے دو سال پہلے سے چل رہا ہے اور ابھی تک چلا جا رہا ہے‘ میں نے کہا کہ مقدمہ کس چیز کا ہے اس نے بتایا کہ ہماری نوکنال زمین تھی اس پر کسی نے قبضہ کر لیا ہے میں نے کہا آپ دفع کریں‘ چھوڑیں اس قصے کو وہ کہنے لگا کہ جی بچوں کا کام بڑا اچھا ہے اور میں اس کو دفع بھی کر دوں لیکن اگر مقدمہ ختم ہو جائے تو میں پھر کیا کروں گا۔ مجھے بھی تو ایک نشہ چاہئے صبح اٹھتا ہوں کاغذ لے کر وکیل صاحب کے پاس آتا ہوں اور پھر بات آگے چلتی رہتی ہے اور شام کو میں گھر چلا جاتا ہوں۔(اشفاق احمد کی نشری تقاریر سے انتخاب)
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات