لاتعلقی

انسانی رویوں میں بڑی خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں‘ میں الگ تھلگ اپنی ایک دنیا کاباسی ہوں‘میرا اپنا ایک ماحول ہے اور میں باقی کی دنیا سے متعلق نہیں ہوں‘ہم ایک مخصوص علاقے کے بندے ہیں‘پانی اگر ایک سائیڈ سے آ رہا ہے تو شوق سے آئے ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں ہے ہم اپنے انداز سے چلیں گے اور موج میلا کریں گے حالانکہ حقیقت میں ایسے نہیں ہے۔ ہم سارے کے سارے ایک دوسرے کیساتھ بندھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں‘جب زندگی میں بہت مشکل پڑتی ہے‘بہت الجھنیں ہوتی ہے(اللہ نہ کرے کہ آپ پر ایسی الجھنیں پڑیں جو آپ کی روح کے اندر تک اتر جائیں)تو پھر آپ کو احساس ہونے لگتا ہے کہ انسان کا انسان کیساتھ تعلق ہے‘باوصف اسکے کہ مجھے اپنا پڑوسی بہت برا لگتا ہے مجھے اپنے ساتھ کام کرنے والے بہت برے لگتے ہیں۔ مجھے اپنا باس زہرلگتا ہے لیکن میری وابستگی اس کے ساتھ ساتھ چلی آ رہی ہے۔ خدانخواستہ آپ کا دادا یا آپ کے ابا حضور جوایک بہت خوفناک بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور حکیم ان سے یہ کہے آپ کسی قسم کی غذا نہیں کھا سکتے یا اسے ہضم نہیں کر سکتے۔ لہٰذا آپ تین منقہ مویز(بغیر بیج کے سو کھا ہوا بڑاانگور) کے دانے ہی صبح کے وقت کھائیں‘ یہ آپ کے لئے کافی ہیں اور آپ جب اس منقے کو لینے کے لئے بازار جاتے ہیں اور آپ کے لئے یہ ایک نئی چیز ہے کیونکہ آپ نے اس کا نام سنا ہوتا ہے۔

 اسے دیکھا نہیں ہوتا تو آپ کے پہلو سے وہ بابا ضرور گزرتا ہے جو بلوچستان میں بڑا انگور بوتا ہے اور جہاں انگور اگائے جاتے ان کھیتوں کھلیانوں کی آبیاری بھی کرتا ہے ان کا خیال بھی رکھتا ہے وہ آپ کے مریض ابا کے لئے یا مریض دادا کے لئے انگور تیار کر رہا ہے اس کو آپ کے ابایا دادا کا نہیں پتہ اور انہیں اس بابا کا نہیں پتہ لیکن انسان بھی ایک عجیب رشتے میں بندھا ہوا ہے اور یہ سلسلہ ہمارے ارد گردرواں دواں رہتا ہے اور یہی خیال بندے کو روشنی عطا کرتا ہے۔آج جب میں ریکا رڈنگ کیلئے آرہا تھا تو میرے ذہن میں کئی ایک موضوعات تھے اور کئی ایک ایسے سلسلے تھے‘جو میں آپ سے ڈسکس کرنا چاہتا تھا یا یوں کہہ لیجئے کہ آپ سے شیئر کرنا چاہتا تھا۔میں اپنی گاڑی میں ایک اشارے پر رکا ہوا تھا تو وہ کوئی گاڑیوں کی مرمت کی مارکیٹ تھی یا دکانیں تھیں وہاں ایک لڑکے کو دکان کے مالک یا اس کے استاد نے کان پکڑوا کر مرغا بنا رکھا تھا وہ بے چارا رو رہا تھا میرے خیال میں وہ کسی انتہائی غریب گھر کا بچہ ہوگا میلے کچیلے کپڑوں میں تھا۔

اس کا استاد اس کے ساتھ بیٹھا ایک ہاتھ سے چائے کا کپ لئے چائے پی رہا تھا اور دوسرے ہاتھ میں وہ کوئی رینج یا پلاس جیسی چیز پکڑے ہوئے کسی چیز کے قابلے وغیرہ کس رہا تھا ہر کوئی اپنے اپنے کام میں مگن تھا اور وہاں یہ نہیں کہ کوئی دیکھنے والا نہیں تھا‘ یا کوئی اور نہیں تھا بلکہ لوگوں کا جم غفیر تھا جس طرح عام طور پر مارکیٹوں میں ہوتا ہے میں نے سوچا کہ اس کی عمر بالکل ہماری اس عمر کی طرح سے تھی جب ہم اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بستہ تختی ہاتھ میں لئے سکول جایا کرتے تھے، ٹینشن اس بات کی نہیں تھی کہ اس لڑکے کو اس کے مستری استاد نے مرغا کیوں بنایا ہے ظاہر ہے اس نے کوئی غلطی کی ہوگی یاکام سیکھنے میں کوئی کوتاہی کی ہوگی مجھے یا میرے ذہن میں مسئلہ یہ تھا کہ آخر کوئی اور بزرگ یا دوسری دکان کا استاد اس کے استاد کو یہ کیوں نہیں آکر کہتا کہ اسے آج چھوڑ دو اسے معاف کردو یہ آئندہ غلطی نہیں کریگا  جس پراسے سزا ملی تھی۔(اشفاق احمد کے نشرپروگرام سے اقتباس)