مہارت کا ثبوت

مشہو ر منصف اور دانشور اشفاق احمد اپنی نشری تقاریر میں ایک جگہ بیان کریت ہیں کہ کئی سال کی بات ہے‘ میرے پاس ایک سائیکل ہوتی تھی جو پٹرول سے چلتی تھی اور وہ بڑی طاقتور تھی‘ ایک دفعہ میں آرہا تھا تو سنٹرل جیل کے پاس ایک نوجوان تھا‘ اس نے مجھے روکا‘ وہ بشرٹ پہنے تھا‘ پاؤں میں اس کے چپل تھی اور پرانی وضع کی ایک جینز پہنے ہوئے تھا‘ کہنے لگا، میں بہت مشہور جیب تراش ہوں‘ میں نو مہینے کی سزا پوری کرکے اب گھر جا رہا ہوں‘ میں نے کہا، اچھا پھر تو آپ بڑے معزز آدمی ہیں‘ جب آپ نے شرافت کے ساتھ دیانت داری کے ساتھ یہ سارا واقعہ سنایا ہے‘آپ بیٹھیں‘ وہ پیچھے بیٹھ گیا تو ہم چلتے رہے‘ جب ہم فیروز پور روڈ پر وہاں پہنچے جہاں فیروز پور روڈ آگے جاکرلٹن روڈ میں تبدیل ہوجاتی ہے تو وہاں پر جاکر اس نے کہا، آپ ادھر سے چلیں ٹمپل روڈ کی طرف سے‘ میں ادھر چلا آگے‘ درمیان میں پہنچے‘ اس سڑک پر تو سپاہی کھڑا تھا سیٹی بجا کے روک لیا‘ تو اس نے کہا، یہ تو ون وے ہے‘ میں تو آپ کا چالان کروں گا‘ میں نے بڑی ان کی منت خوشامد کی کہ آپ چالان نہ کریں‘ وہ جوتھا میرا ساتھی، وہ بھی اتر کے کھڑا ہوگیا‘ اس نے کہا، سنتری بادشاہ جانے دیں‘ یہ کیا ہے، غلطی ہوگئی ہم سے، پتا نہیں تھا‘ کافی بحث و مباحثے کے بعد اس نے کاپی نکالی‘ کاربن رکھا اور میرا نام پوچھ کے لکھ کے چالان کرکے پھاڑ کے کاغذ مجھے دے دیا اور کاربن اگلے کاغذ کے نیچے رکھ کے وہ کاپی جو تھی، اپنی بشرٹ کی جیب میں ڈال لی‘ اب وہ جو میرا ساتھی تھا، جس کو میں پیچھے بٹھاکے لا رہا تھا، وہ بے چارہ ظاہر ہے بڑا پریشان ہوا کہ میری وجہ سے یہ ہوا“ وہ میرا ساتھی اس کے گلے لگ کے جپھی ڈال کے پھر کھسک کے نیچے پاؤں میں بیٹھ گیا۔

 پاؤں سے پھر اونچا اٹھا، پھر اس کو دئیے خدا کے واسطے‘ اس نے پرے دھکیل دیا تو اس نے کہا، ٹھیک ہے، تمہاری مرضی‘ کوئی بات نہیں‘ سپاہی نے بتا دیا کہ فلاں مجسٹریٹ کی عدالت میں بدھ کے روز حاضر ہونا ہے‘ جب میں بھاٹی پہنچا تو اس نے کہا‘میں آپ کا بڑا شکر گزار ہوں‘ آپ نے بڑی محبت کے ساتھ، محنت کے ساتھ اور بڑی دید کے ساتھ مجھے یہاں تک پہنچایا‘ میں نے کہا، کوئی بات نہیں اور اس نے کہا، میں آپ کی خدمت میں کیا شکرانہ پیش کروں اور پھر اس نے جیب سے نکال کر سپاہی کی کاپی مجھے دے دی‘ وہ جس کے اوپر چالان لکھتے ہیں نا‘ جس میں نیا کاربن بناکے رکھا ہوا تھا جس میں میرے بھی چالان کی نقل تھی‘ یہ آپ کی‘ جب وہ جپھی ڈال رہا تھا، اس کے نیچے اوپر ہو رہا تھا‘ اب گرہ کٹ بھی کمال کا تھا‘ انہوں نے کہا‘ جی میری یہ یادگار آپ رکھیں۔ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہجب میری شادی ہوئی تو وہ ایسا زمانہ تھا جب امیری اور تقاضے اتنے تھے نہیں‘ اور ہم (میں اوربانو قدسیہ)دونوں اچھے اور درمیانے درجے کے تھے اور ویسے زندگی بسر کر رہے تھے جیسے عام لوگ کرتے تھے لیکن خوش بہت تھے۔ یہ خواہش ہوتی کہ کچھ نہ کچھ اور کچھ ایسی چیزیں ہمارے گھر میں بھی اکٹھی ہوتی رہیں‘ جیسے نوبیاہتا جوڑے کو آرزو ہوتی ہے گھربنانے کی‘میری بیوی اپنے غریبی دعوے کے مطابق گھر میں ایسی چیزیں لاتی تھی جو اس کے گھر کو ایسی ہی عزت بخش سکیں جیسا کہ بڑے گھروں کو ملتی ہیں لیکن بے چاری کا بس نہیں چلتا تھا‘ پھر ہم اچانک بیچ میں امیر ہو گئے۔

ہمارے امیر ہونے کی ایک نشانی یہ تھی کہ ہمارے گھر میں نئی چیز آئی جو پہلے ہمارے گھر میں نہیں تھی‘وہ شیمپو کی شیشی تھی‘ اس زمانے میں کسی گھر میں شیمپو ہونے کا مطلب امیر ہونا تھا وہ نو روپے گیارہ آنے کی شیشی تھی رنگ اس کا گہرا سبز تھا اور اس کا منہ بڑا تنگ ہوتا تھا‘ہم نے امیر ہو کر اس شیمپو کیساتھ اپنے سر کو دھونا شروع کیا اور ہم اتنے خوش ہوئے کہ جیسے دنیا جہاں کی نعمت اور دولت ہمیں مل گئی ہو‘۔اچھا میں بات کر رہا تھا اپنی امارات کی‘ ہمارے امیر ہوچکنے کے بعد پھر ہم یہاں ایک امریکی اشاعتی ادار ے فرینکلن سے وابستہ ہوگئے مجھے اس ادارے سے ایک کتاب ترجمہ کرنے کاآرڈر مل گیا اور اس کے ایک ماہ بعد بانو قدسیہ کو بھی اس ادارے سے ایک کتاب مل گئی‘‘ بانو نے ایک دن مجھ سے کہا کہ ہمارے گھر میں ایک بہت اعلیٰ درجے کی میز ہونی چاہئے۔ہماری خوش قسمتی تھی کہ انہی دنوں کباڑیوں کے پاس کسی سفارتخانے کا سامان بکنے کیلئے آیا‘اس سامان میں ایک کمال کی میز تھی اس پر کم سے کم آٹھ افراد کو کھانا دیاجا سکتا تھا ‘بانو کے بار باربھاؤ تاؤ کرنے سے کباڑیہ بھی تنگ آ گیااور جان چھڑانے کیلئے ایک دن کباڑیے نے بانو سے کہا کہ ”بی بی ریڑھالاؤ اوراسے لے جاؤ“