وزیر اعظم بورس جانسن کو استعفیٰ دینے سے پہلے اور بعد میں بھی تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا یہاں اہم سوال یہ ہے کہ استعفیٰ دینے کے بعد کسی دوسری تحریک عدم اعتماد کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے حقائق یہ بتاتے ہیں کہ برطانوی وزیر اعظم نے سات جولائی کو استعفیٰ دیا اسکے بعد 18 جولائی کو لیبر پارٹی کے لیڈر Keir Starmer نے اسلئے مستعفی وزیر اعظم کے خلاف ووٹ آف نو کانفیڈنس پیش کیا کہ انہوں نے اپنی ٹوری پارٹی سے ستمبر تک نگران وزیر اعظم رہنے کی منظوری لی ہوئی تھی لیبر پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ بورس جانسن نے بے توقیر ہو کر استعفیٰ دیا ہے اسلئے انہیں مزید ایک دن بھی وزیر اعظم نہیں رہنا چاہئے اس شو ڈاؤن میں بورس جانسن کے حق میں 349اور انکے خلاف 238ووٹ پڑے اب ستمبر کے پہلے ہفتے میں جب ٹوری پارٹی نیا وزیر اعظم منتخب کرے گی تو اس سے ایک روز پہلے بورس جانسن وزارت عظمیٰ سے دستبردار ہو جائیں گے بورس جانسن کی وزارت عظمیٰ رواں سال کے اوائل ہی سے بحرانوں میں گھری ہوئی تھی ان پر انکی سرکاری رہائش گاہ ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ میں کورونا وائرس کے دوران کئی پارٹیاں منعقد کرنیکا الزام تھا ان دنوں پورے ملک میں وزیر اعظم کے منظور کردہ قوانین کے مطابق سخت لاک ڈاؤن تھا ان پارٹیوں کی وجہ سے لندن پولیس نے سابقہ وزیر اعظم پر جرمانہ کیا تھا اس جرمانے کی مالیت نہیں بتائی گئی اس پارٹی گیٹ سکینڈل کی وجہ سے ٹوری پارٹی نے چھ جون کو اپنے وزیر اعظم کو پارٹی سے اعتماد کا ووٹ لینے کو کہا اس ووٹنگ کے نتیجے میں بورس جانسن کے حق میں 211اور انکے خلاف 148 ووٹ پڑے تھے۔
یوں بورس جانسن اپنی پارٹی کے اندر سے اٹھنے والی تحریک کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو گئے ٹوری پارٹی کے قوانین کے مطابق اب اگلے ایک سال تک انکی جماعت انہیں معزول نہ کر سکتی تھی لیبر پارٹی کے پاس بھی اتنے ووٹ نہ تھے کہ وہ بورس جانسن کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرتی تو پھر ایسا کیا ہوا کہ بورس جانسن نے جمعرات سات جولائی کو استعفیٰ دے دیا جب ہاؤس آف کامنز کی دونوں بڑی جماعتیں انہیں معزول نہ کر سکتی تھیں تو انہوں نے کیوں استعفیٰ دیا اسکی وجہ یہ تھی کہ جولائی کے پہلے ہفتے میں انکا ایک نیا سکینڈل سامنے آیا اس سکینڈل کی نوعیت یہ تھی کہ انہوں نے اپنے ایک دوست Chris Pincher کو ٹوری پارٹی میں ایک سینئر عہدے پر تعینات کیا تھا۔ کرس پنچر لندن کی ایک بار میں نشے کی حالت میں بد تمیزی اور شور شرابا کرتے ہوے پکڑا گیا۔وزیر اعظم سے جب اس بارے میں صحافیوں نے پوچھا تو انہوں نے لا علمی کا اظہار کر دیا۔ بعد میں یہ ثابت ہو گیا کہ انہیں اس واقعے کا علم تھا مگر انہوں نے جان بوجھ کر میڈیا سے جھوٹ بولا۔بورس جانسن طویل عرصے سے برطانوی عوام میں ایک compulsive liar یعنی عادی دروغ گو کے طور پر جانے جاتے تھے۔یہ نیا جھوٹ انکے لئے اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا اسکے سامنے آتے ہی وزیر اعظم کی کابینہ کے چار سینئر وزراء نے فوراً استعفے دے دیئے اسکے بعد اگلے چوبیس گھنٹے میں انکے سٹاف کے 60 ممبروں نے بھی ملازمت چھوڑ دی استعفوں کی اس آندھی کے بعد وزیر اعظم کے پاس اپنے عہدے پر برقرار رہنا ممکن نہ رہا۔
اس صورتحال میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہیں انکی پارٹی نے ہٹایا ہے ٹوری پارٹی تو ایک مہینہ پہلے انکے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر انہیں ہٹانے میں ناکام ہو چکی تھی یہ کارنامہ تو انکی کابینہ اور سٹاف نے سر انجام دیا تھا۔مجھے یہ تفصیل بیان کرنے کی ضرورت اسلئے پیش آئی کہ میں پاکستان کے اخبارات پڑھنے کے علاوہ کم از کم دو تین ٹاک شوز بھی ہر روز دیکھ لیتا ہوں اسلام آباد میڈیا میں آجکل بورس جانسن کی رخصتی کی مثالیں تواتر سے دی جا رہی ہیں مخالفین ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کیلئے یہ مثال بڑی آسانی سے پیش کر دیتے ہیں مگر کوئی بھی اس خرابے کی تفصیل بیان نہیں کرتا صرف ایک یا دو جملے کہنے پر اکتفا کیا جا تا ہے ملک بھر میں کئی صحافی ایسے ہوں گے جو اس واقعے کی مکمل تفصیل مجھ سے بہتر جانتے ہوں گے مگر میری معلومات کے مطابق انہوں نے اس معاملے میں ریکارڈ درست کرنے کی کوشش نہیں کی۔ آجکل ٹوری پارٹی ایک نیا وزیر اعظم منتخب کرنے کے مراحل سے گزر رہی ہے اس کام کے پہلے مرحلے میں جتنے بھی امیدوار ہوتے ہیں انہوں نے ٹوری پارٹی کے 359 منتخب ممبروں سے کم از کم اٹھارہ ووٹ لینے ہوتے ہیں دوسرے مرحلے میں باقی رہ جانے والے امیدواروں میں سے ہر ایک نے 36ووٹ لینے ہوتے ہیں اسکے بعد چوٹی کے دو امیدوار چن لئے جاتے ہیں جنہوں نے ملک بھر میں انتخابی مہم چلا کر ٹوری پارٹی کے تقریباً دو لاکھ ممبروں سے ووٹ لینے ہوتے ہیں جو جیت جاتا ہے وہ پارٹی کا سربراہ بھی ہوتا ہے اور وزیر اعظم بھی۔ ان دنوں یہ مقابلہ بھارتی نژاد رشی سوناک اور الزبتھ ٹرس میں ہو رہا ہے ان دونوں میں سے کون بنے گا وزیر اعظم، اسکا فیصلہ پانچ ستمبر کو ہو گا۔