روم میں اشفاق احمد وہاں کی یونیورسٹی میں اردو پڑھاتا تھااور ریڈیو روم میں اردو کا پروگرام بھی کرتا تھاروم میں ایک کئی منزلہ عمارت میں اشفاق احمد کے پاس ایک کمرہ تھا اس نے میرا سوٹ کیس اپنے کمرے میں رکھتے ہی پوچھا ’لسی پیو گے؟۔“ روم اورلسی؟نیکی میں پوچھ پاچھ کیا‘میں نے فوراً حامی بھرلی اشفاق مجھے بازار میں ایک اطالوی کی دکان پر لے گیا جو دودھ‘دہی‘مکھن کریم اور پنیر بیچتا تھا اس نے دکان میں داخل ہوتے ہی دکاندارکو’چاچا‘ کہہ کر پنجابی کی ایک فحش گالی دی دکاندار نے بھی پے درپے دو تین پنجابی گالیاں دیکر اسے خوش آمدیدکہا اسکے بعد اشفاق احمد نے میرا تعارف کرایا دکاندار نے پنجابی زبان میں چند گالیاں دیکر میرے ساتھ اپنی خیر سگالی کا اظہارکیا اور ہمیں نہایت لذیذ نمکین لسی بناکر پلائی۔ ان دنوں اشفاق کے پاس ایک سکوٹر ہوتا تھا اس پر بٹھا کر اس نے مجھے روم دکھانے کا پروگرام بنایا ہم تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ اشفاق نے پوچھا’ہمیں سکوٹر پر بیٹھ کر روانہ ہوئے تین منٹ ہوگئے؟’ہاں‘ہوگئے میں نے گھڑی دیکھ کرکہا۔ شکر ادا کرو کہ ہم خیریت سے ہیں اشفاق نے کہا روم کی سڑکوں پر ہر تین منٹ میں ٹریفک کا ایک حادثہ ہوتا ہے۔
نصف گھنٹہ کے بعد اشفاق نے پھر مجھے کلمہ شکر پڑھنے کی تلقین کی کیونکہ روم میں ہر تیس منٹ کے بعد جو حادثہ ہوتا تھا وہ مہلک ثابت ہوتا تھا میں نے سکوٹر پر مزید سیرکرنے سے صاف انکار کردیا کئی روز متواتر پیدل جوتیاں چٹخانے چٹخاتے میرے بوٹوں کا اکلوتا جوڑا دم توڑ گیا نیا جوتا خریدنے میں اشفاق نے میری رہنمائی کی جوتوں کی دکان میں جاکر میں نے جو پہلے جوڑا ٹرائی کیا‘وہ فٹ تھا میں نے اسے خریدنے کی ٹھانی‘تو اشفاق نے ڈانٹا کہ روم میں جوتا خریدنے کے یہ آداب نہیں ہیں یہاں پر آٹھ دس جوتے ٹرائی کرلو‘اسکے بعد دوسری جگہ چلیں گے بڑی مشکل سے تیسری دکان میں جاکر کوئی پندرھواں جوڑا اشفاق کی نظر میں جچ گیا وہ بڑی دیر تک دکاندار کیساتھ اطالوی زبان میں اس جوتے پر گفتگو کرتا رہا کسی بات پر تاؤ کھا کر دکاندار نے جوتے کا جوڑا تہہ در تہہ مروڑ کر میری پتلون کی جیب میں ڈال دیا یہ اس بات کی دلیل تھی کہ یہ جوتا بے حد نازک اور لچکدار ہے اشفاق نے بھی میری جیب پرہاتھ پھیر کر تصدیق کہ جیب میں جوتا نہیں بلکہ رومال پڑا ہوا محسوس ہوتا ہے کچھ مزید مول تول کے بعد اشفاق نے اپنے پاس سے ساڑھے تین ہزار لیرے ادا کئے اور یہ جوتا خرید کر مجھے بطور تحفہ دے دیا۔
قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ صدر اسکندرمرزا نے مجھے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک نوجوان بیرسٹر ہے، بڑا پڑھا لکھا آدمی ہے، سندھ کے امیر کبیر گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، کتابیں جمع کرنے کا شوقین ہے، وہ ایوان صدر کی لائبریری میں سندھ کے متعلق جو بہت سی کتابیں ہیں انہیں دیکھنا چاہتا ہے‘ صدر مرزا نے مجھے ہدایت کی کہ میں ٹیلی فون کرکے اس نوجوان کو اپنے پاس بلاؤں اور پریذیڈنٹ ہاؤس کی لائبریری استعمال کرنے میں ان کی مدد کروں‘ میرے بلاوے پر ایک چھریرے بدن کا ایک نہایت خوش لباس‘ خوبصورت‘ تیزطرار‘ شوخ اور سیماب صفت نوجوان میرے کمرے میں وارد ہوا‘ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو میں بلاکی ذہانت اور فطانت تھی اور انہیں بہت سے جدید علوم اور ان کے اظہارپر حیرت انگیز عبور حاصل تھا‘چند ہی روز میں انہوں نے پریذیڈنٹ ہاؤس کی چھوٹی سی لائبریری کو کھنگال کے رکھ دیا‘ ایک روز وہ میرے کمرے میں بیٹھے کسی کتاب سے کچھ اقتباسات ٹائپ کروا رہے تھے کہ صدر اسکندر مرزا دن کے ایک بجے میری کھڑکی کے پاس آکر رکے‘ بھٹو صاحب کو دیکھ کر انہوں نے بلند آواز سے کہا”زلفی گڈ نیوز فاریو۔ تمہارا نام یو این او کے ڈیلی گیشن میں شامل ہوگیا ہے“
یہ خبر سن کر بھٹو صاحب خوشی سے سرشار ہوگئے‘ صدر مرزا کے جانے کے بعدمجھے مخاطب کرکے اپنی مخصوص اردو میں کہا ”آپ صاحب دیکھو گے کہ اب میں اس راہ پر آیا ہوں تو فارن منسٹر کی کرسی تک دوڑ لگاؤں گا‘اپنی پہلی ملاقات ہی سے وہ مجھے ”آپ صاحب“کہہ کر مخاطب کرتے تھے‘ وزیر‘ وزیراعظم اور صدر کی حیثیت سے بھی انہوں نے اس اسلوب تخاطب کو بڑی وضع داری سے نبھایا‘ ان کے عروج کے آخری دور میں بہت سے وزیروں اور اعلیٰ افسروں کو اکثر یہ شکایت رہتی تھی کہ بھٹو صاحب کا بینہ اور دوسری میٹنگوں میں ان کیساتھ بڑی سختی‘ بدسلوکی اور ہتک آمیز رویہ سے پیش آتے ہیں لیکن ذاتی طورپر مجھے کبھی کوئی ایسا تجربہ نہیں ہوا‘ میں جیسا ”آپ صاحب“ شروع میں تھا، ویسا ہی آخر تک رہا۔(شہاب نامہ سے اقتباس)