مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد نے نشری تقاریر کے ذریعے اپنے مشاہدات اور زندگی کے تجربات کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ جہاں قاری اسے پڑھتے ہوئے لطف اندوز ہوتا ہے وہاں دماغ کے دریچے بھی کھل جاتے ہیں۔ ایک مقام پر وہ لکھتے ہیں کہ واقعی زندگی مصروف ہو گئی ہے واقعی اس کے تقاضے بڑے ہو گئے ہیں لیکن جب انسان انسان کیساتھ رشتے میں داخل ہوتا ہے تو سب سے بڑا تحفہ اس کا وقت ہی ہوتا ہے۔جب آپ کسی کو وقت دیتے ہیں یا کوئی آپ کو وقت دیتا ہے اپنا لمحہ عطا کرتا ہے تو آپ حال میں ہوتے ہیں اس کا تعلق ماضی یا مستقبل سے نہیں ہوتا‘جب آپ معمولی کام کو اہمیت نہیں دیتے اور لمبا سا منصوبہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اپنا ذاتی اور انفرادی تو پھر آپ سے اگلا کام چلتا نہیں۔
کافی عرصہ پہلے میں چین گیا تھا یہ اسوقت کی بات ہے جب چین نیا نیا آزاد ہوا تھا‘ہم سے وہ ایک سال بعد آزاد ہوا ان سے ہماری محبتیں بڑھ رہی تھیں اور ہم ان سے ملنے چلے گئے‘افریقہ اور پاکستان کے کچھ رائٹر چینی حکام سے ملے‘ایک گاؤں میں بہت دور پہاڑوں کی اوٹ میں کچھ عورتیں بھٹی میں دانے بھون رہی تھیں‘ دھواں نکل رہا تھا‘ میرے ساتھ شوکت صدیقی تھے کہنے لگے یہ عورتیں ہماری طرح سے ہی دانے بھون رہی ہیں جب ہم ان کے پاس پہنچے تو دو عورتیں دھڑا دھڑ پھوس، لکڑی جو کچھ ملتا تھا بھٹی میں جھونک رہی تھیں اور کڑاہے میں کوئی لیکوڈ (مائع) سا تیار کر رہی تھیں ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ یہ کیا کر رہی ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم نے سٹیل بنانے کا ایک طریقہ اختیار کیا ہے کہ کس طرح سے سندور ڈال کرلوہے کو گرم کرنا ہے۔
یہ عورتیں صبح اپنے کام پر لگ جاتیں اور شام تک محنت اور جان ماری کیساتھ سٹیل کا ایک ”ڈلا“یعنی پانچ چھ سات آٹھ سیر سٹیل تیار کر لیتیں۔ ٹرک والا آتا اور ان سے آکر لے جاتا۔انہوں نے بتایا کہ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے ہم اس سٹیل کے بدلے لے لیتے ہیں میں اب بھی کبھی جب اس بات کو سوچتا ہوں کہ ان کی کیا ہمت تھی ان کو کس نے ایسے بتا دیا کہ یہ کام ہم کریں گی تو ملک کی کمی پوری ہوگی چھوٹا کام بہت بڑا کام ہوتا ہے اس کو چھوڑ انہیں جا سکتا جو کوئی اسے انفرادی یا اجتماعی طور پر چھوڑ دیتا ہے مشکل میں پڑ جاتا ہے۔بہاولپور میں ایک سکول ٹیچر حبیب اللہ صاحب تھے‘ وہاں ایک کرم الٰہی صاحب بھی تھے وہ بھی استاد تھے‘ وہ ایک ساتھ کافی عرصہ اکٹھے پڑھاتے رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد جدا ہوگئے‘ ان میں بڑا پیار تھا۔
کرم الٰہی صاحب لاہور آگئے جبکہ حبیب اللہ صاحب بہاولپور میں ہی رہے‘ وہ وہاں اپنا کام کرنے کے بعد رات کو بس پکڑ کر ساہیوال پہنچ گئے‘ ساہیوال بس سٹینڈ سے یکہ لے کر کرم الٰہی صاحب کے گاؤں چک گ‘ ب یا ای‘ بی جو بھی تھا وہاں چلے گئے وہ اپنے یار قدیم کے گھر پر دستک دی‘ حبیب اللہ صاحب کہنے لگے کہ میں چائے تو لاری اڈے سے ہی پی آیا ہوں‘ چلیں اکٹھے چل کے نماز پڑھتے ہیں‘ (اس وقت فجر کی اذان ہورہی تھی) انہوں نے کہا کہ ملتان آیا ہوں ساہیوال قریب ہی ہے چلو کرم الٰہی سے مل آتا ہوں‘ خواتین و حضرات بہاولپور سے ملتان اتنا سفر نہیں ہے جتنا ملتان سے ساہیوال ہے لیکن وہ اس سفر کو ”قریب ہی“ کا نام دے رہے تھے‘ انہوں نے اپنے یار عزیز سے کہا کہ تم سے ملنا تھا مل لیا‘ تمہیں دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی اور اکٹھے فجر پڑھ لی اور اب میں چلتا ہوں‘ کرم الٰہی صاحب نے بھی کہا کہ بسم اللہ آپ کے دیدار سے دل خوش ہوگیا‘ جوں جوں انسان کے درمیان فاصلے ہوتے جارہے ہیں اور نظر نہ آنے والی دراڑیں پڑتی جاتی ہیں۔
انسان بیچارہ ان فاصلوں کو پیسوں کی کمی سے جوڑ رہا ہے اور اس نے سارا زور معاشی پوزیشن بہتر کرنے پر لگا رکھا ہے‘ میں سوچتا ہوں کہ اگر معاشی صورتحال اچھی ہوگئی اور انسانوں کا منہ ایک دوسرے کے مخالف رہا تو پھر ان پیسوں‘ ڈالروں کا آخر کیا فائدہ ہوگا؟ اس لئے ہمیں اپنے اپنے طور پر سوچنا پڑے گا کہ چاہے ایک دوسرے سے لڑائی ہوتی رہے لیکن وچھوڑا تو نہ ہو۔آپ کو یاد ہو گا جب شارجہ میں میانداد نے چھکالگایا تھا‘میں شادمان کے علاقے میں جا رہا تھا کہ میری گاڑی میں خرابی پیدا ہو گئی‘میں نے نیچے اتر کر دیکھا تو اس کو ٹھیک کرنا میرے بس کی بات نہیں تھی‘ایک خاتون گھر سے باہر آئیں‘انہوں نے آ کر دیکھا اور پھر کہا کہ یہ آپ سے ٹھیک نہیں ہوگی‘ میں نے اس سے کہا کہ میں کہیں جلدی جانا چاہتا ہوں‘اس نے کہا کہ آپ گاڑی کو یہاں چھوڑ دیں‘ میرا بیٹا انجینئر ہے وہ اسے دیکھ لے گا‘ میں بلاتی ہوں اس لڑکے نے آکر کہا کہ انکل آپ جا کر اندر بیٹھیں میں دیکھتا ہوں اور وہ کام کرنے لگا‘میں انکے گھر میں جا کر بیٹھ گیا۔
وہاں ٹی وی لگا ہوا تھا اس دوران میں میانداد آیا اس نے چھکا لگایا اور پاکستان جیت گیا اس وقت پوری قوم ٹی وی اور ریڈیو سیٹوں سے چمٹی ہوئی تھی اس لڑکے کی ماں نے مجھے آ کر کہا کہ گاڑی ٹھیک ہو گئی‘میں نے اس لڑکے سے آ کر کہا کہ یار تم نے میچ نہیں دیکھا۔وہ کہنے لگاکوئی بات نہیں۔ آپ نے دیکھ لیا تو میں نے دیکھ لیا۔ آپکی دقت ختم ہو گئی خواتین و حضرات! اس نے یہ چھوٹی سی بات کہہ کر مجھے خرید لیا۔ بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات ہے لیکن اس نے مجھے ایسی چیز عطا کی جس کا میں آج تک دینے دار ہوں۔ہم اپنی والدہ کو ”پھر نتو“ کہتے تھے۔ وہ آزاد منش خاتون تھیں اور عموماً اپنے کمرے میں نہیں رہتی تھی بس ادھر ادھر پھرتی رہتی تھیں‘اتنی پڑھی لکھی بھی نہیں تھیں‘ جب بھی دیکھیں کمرے کا چکرلگا کے باورچی خانے میں پہنچتی ہوتیں۔
انہیں جہاں بھی چھوڑ کر آتے تھوڑی دیر کے بعد وہ کچن میں ”کڑھم“ کرکے موجود ہوتیں۔ ایک بار دوپہر کے وقت وہ باورچی خانے میں کھڑی تھیں اور سب سوئے ہوئے تھے‘میں نے پوچھا جی کیا کر رہی ہیں تو وہ کہنے لگیں کہ بندر والا مداری آیا تھا وہ بھوکا تھا اس کیلئے پکوڑے تل رہی ہوں۔ میری اماں کا سارا سینٹر باورچی خانہ تھا وہ بھی کہتیں کہ میری زندگی کا مرکز ہی یہ ہے اور مجھے لوگوں کوکچھ عطا کرکے خوشی ہوتی ہے۔اس زمانے میں شاید ساری عورتیں اس نظریے کی قائل تھیں۔اگر آپ اپنی زندگی کو کبھی غور سے دیکھیں اور چھوٹی چمٹی کے ساتھ زندگی کے واقعات چنتے رہیں تو آپ کو بے شمار چیزیں ایسی نظر آئیں گی جو ایسے ہی آپ کی نگاہ سے اوجھل ہو گئی ہیں لیکن وہ بڑی قیمتی چیزیں ہیں۔