مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد اپنی نشری تقاریر میں بیان کرتے ہیں کہ ہمیں زندگی میں کبھی کبھی ایسا انسان ضرور مل جاتا ہے جس کو دیکھ کر حیرانی ضرور ہوتی ہے کہ یہ کیسا بادشاہ آدمی ہے؟ یہ مالی طور پر بھی کمزور ہے لیکن یہ خوش ہے‘ہمارے علاقہ ماڈل ٹاؤن میں ایک ڈاکیا ہے جو بڑا اچھا ہے اب تو شاید چلا گیا ہے‘ اس جیسا خوش آدمی میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا اس کا عشق ڈاک بانٹنا اور ہر حال میں خط پہنچانا ہے‘ چاہے رات کے نو بج جائیں وہ خط پہنچا کر ہی جاتا ہے‘ وہاں علاقے میں کرنل صاحب کا ایک کتا تھاان کو پتہ نہ چلا اور ایک روز اچانک اس کتے نے اس کی ٹانگ پر کاٹ لیااور اس کی ایک بوٹی نکال لی‘خیر وہ ٹانگ پر رومال باندھ کر خون میں لت پت ڈاکخانے آگیا اسے دیکھ کر پوسٹ ماسٹر صاحب بڑے پریشان ہوئے اس نے انہیں ساری بات سے آگاہ کیا پوسٹ ماسٹر صاحب کہنے لگے کہ کیا تم نے کچھ لگایا بھی کہ نہیں!وہ کہنے لگا نہیں جی بس بے چارہ پھیکا ہی کھا گیا میں نے وہاں کچھ لگایا تو نہیں تھا اب وہ ناداں سمجھ رہا تھا کہ آیا پوسٹ ماسٹر صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ اس ٹانگ پر کتے کے کاٹنے سے پہلے کچھ لگایا ہوا تھا کہ نہیں۔
ہم اسے بعد میں ہسپتال لے کرگئے اور اسے ٹیکے ویکے لگوائے وہ بڑی دیر کی بات ہے لیکن وہ مجھے جب بھی یاد آتا ہے تو خیال آتا ہے کہ وہ کتنا عجیب و غریب آدمی تھا جو گھبراتا ہی نہیں تھا اور ایسے آدمی پر کبھی خواہش گھیرا نہیں ڈال سکتی‘ انسان جب بھی خوش رہنے کے لئے سوچتا ہے تو وہ خوشی کے ساتھ دولت کو ضرور وابستہ کرتا ہے اور وہ امارت کو مسرت سمجھ رہا ہوتا ہے جب یہ باتیں ذہن کے پس منظر میں آتی ہیں تو پھر خوشی کا حصول ناممکن ہو جاتا ہے ہم ایک بار ایک دفتر بنا رہے تھے اور مزدور کام میں لگے ہوئے تھے وہاں ایک شاید سلطان نام کا لڑکا تھا وہ بہت اچھا اور ذہین آدمی تھا اور میں متجسس آدمی ہوں اور میرا خیال تھا کہ کام ذرا زیادہ ٹھیک ٹھاک انداز میں ہو میں اس مزدور لڑکے کا کچھ گرویدہ تھا ہم دوسرے مزدوروں کو تیس روپے دیہاڑی دیتے تھے لیکن اسے چالیس روپے دیتے تھے وہ چپس کی اتنی اچھی رگڑائی کرتا تھا کہ چپس پر کہیں اونچ نیچ یا دھاری نظر نہیں آتی تھی ایک اور مقام پر اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ بانو قدسیہ کی والدہ جو میری ساس تھیں وہ لمبے لمبے دوروں پر جایا کرتی تھیں وہ اپنے ساتھ ”کروشیا“ ضرور رکھتی تھیں (شاید ہمارے ان بچوں کو کروشیئے کا پتہ نہ ہو) وہ سفر میں اپنے کروشیئے کے ساتھ کھٹا کھٹ بنتی جاتی تھیں اور جب دورے سے لوٹ کر آتی تھیں تو ان کے پاس کچھ نہ کچھ بنا ہو اور مکمل ہوا ہوتا تھا۔
جب کبھی ولائیت کی خواتین آتی تھیں تو انہیں دیکھ کر بہت حیران ہوتی تھیں ایک دفعہ ہم اسلام آباد جارہے تھے تو انہوں نے اپنا کروشیا نکال لیا اور کچھ بننے لگیں۔ ان کیساتھ ایک خاتون بیٹھی تھیں‘وہ انہیں بڑے غور سے دیکھنے لگیں (ان دنوں فوکر کا زمانہ تھا) وہ خاتون کہنے لگیں کہ آپ نے تو بڑے کمال کا ڈیزائن بنایا ہے۔ یہ بہت خوبصورت ہے وہ گلاس کے نیچے رکھنے والی کوئی چیز تھی۔ میری ساس اس خاتون کو کہنے لگی کہ یہ اب مکمل ہوگیا اور یہ اب تمہارا ہوا۔ اس نے بڑی مہربانی اور شکریے سے وصول کیا‘جب میری ساس صاحبہ اس طرح کی کوئی دوسری چیز بنانے لگیں تو اس خاتون نے کہا کہ یہ تو میں حیدر کو دے دوں گی اور میں چاہتی ہوں کہ اس جیسا ایک اور میرے پاس بھی ہو میری ساس کہنے لگی کہ وقت تھوڑا ہے اور یہ بن نہیں پائے گا آپ مجھے اپنا ایڈریس دے دیں میں پہنچا دوں گی لیکن انہوں نے بنانا شروع کر دیا جب ہم پنڈی پہنچے تو اناؤنسمنٹ ہوئی کہ بہت دھند ہے جس کی وجہ سے لینڈنگ ممکن نہیں ہے لہٰذا اس جہاز کو پشاور لے جایا جارہا ہے‘اس سے میری ساس بڑی خوش ہوئی کہ اسے مزید وقت مل گیا ہے۔