قدرت اللہ شہاب جہاں پاکستان بننے سے پہلے اور ابتدائی دنوں میں بیوروکریسی میں اہم عہدوں پرفائز رہے وہاں ان میں لکھنے کی صلاحیت بھی کھوٹ کھوٹ کر بھری ہوئی تھی جس کا انہوں نے بہترین استعمال کیا اور اپنی یاداشتوں کو انہوں نے جس انداز میں قلمبند کیا ہے وہ پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے کر پڑھنے پر مجبور کردیتا ہے۔ایک مقام پر وہ بیرون ملک اپنے قیام کے دوران پیش آنے والے واقعات اور مشاہدات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میونسپلٹیوں کے نظام کے مطالعہ کے سلسلے میں مجھے ہالینڈ کے چھوٹے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں بھی جانا پڑتا تھا ایک جگہ میری رہائش کابندوبست ایک ایسے خاندان میں ہوا جس میں پانچ بیٹیاں اور چار لڑکے تھے۔ اتوار کے روز سارے خاندان نے بائیسکلوں پر سوار ہوکر پکنک پر جانے کا پروگرام بنایا گھر میں گیارہ بائیسکل موجود تھے جو میاں بیوی اور بچوں میں بٹ گئے میرے لئے بارہواں بائیسکل کسی ہمسائے سے عاریتاً مانگ لیاگیا ہمارا قافلہ سائیکلوں پر سوار ہوکر باہر نکلا تو چاروں طرف سڑکوں پر بائیسکل ہی بائیسکل نظر آئے ہالینڈ کی سرزمین اتنی ہموار ہے کہ بائیسکل کو یہاں پر قریباً قریباً قومی سواری ہونے کا درجہ حاصل ہے ہے بہت سی سڑکوں پر بائیسکل چلانے والوں کے لئے الگ الگ راستے ہیں کبھی کبھار ملکہ جولیانہ بھی سائیکل پر سوار ہو کر شہر میں نکل جاتی ہیں ہمارا قافلہ ایک پارک میں جاکر رکا بھوک سے میرا برا حال ہورہا تھا مجھے توقع تھی کہ اب ہماری خاتون خانہ لذت کام ودہن کا انتظام فرمائیں گی.
اس کے برعکس انہوں نے اپنا پر س کھولا اور پیپر منٹ سویٹ کی ایک ایک گولی تقسیم کرکے ہم سب کوہدایت کی ’اسے چبانا مت‘ دھیرے دھیرے چوسنا‘اس سے تمہارا سانس مصفا ہوجائے گا۔گولیاں چوس کر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد اسی طرح بھوکے پیاسے پھر بائیسکلوں پر سوار ہوکر رخت سفر باندھا راستے میں ایک گاؤں سے گزر ہوا جہاں بڑا بارونق ہاٹ لگا ہوا تھا خوب گہما گہمی تھی اور طرح طرح کا مال واسباب بک رہا تھا ایک دکان پر گرما گرم مچھلی تلی جارہی تھی میں نے اس طرف ذراللچائی ہوئی نظروں سے دیکھا تو میری میزبان نے بڑی مروت سے پوچھا’تمہیں تلی ہوئی مچھلی پسند ہے؟ میں نے بڑے زور سے اثبات میں سرہلایا اور منہ میں سیروں پانی بھر کر انتظار میں کھڑا ہوگیا‘لیکن یہ مچھلی بھی پانی سے نہیں سراب سے پکڑی ہوئی تھی اس نے پاؤ بھر مچھلی تلواکر ایک مومی کاغذ میں لپیٹی اور اسے اپنے پرس میں حفاظت سے بند کرلیا جب ہم واپس گھر پہنچے تو ڈنر کا ٹائم قریب تھا خاتون خانہ نے تلی ہوئی مچھلی کو چورا چورا کرکے ایک پیالہ میں ڈالا اور اس میں ٹماٹر کی چٹنی اور سرکہ ملا کر لسئی بنالی اسے اس نے مکھن کی طرح بہت سے توسوں پر لگادیا ساتھ ہی بھاپ دیتے ہوئے سوپ کا بادیا اور ابلے ہوئے آلوؤں کا ڈھیر کھانے کی میز پر آگیا اور دن بھر کی مشقت کے بعد ہم اتوار کے خصوصی ڈنر سے سرخرو ہوگئے ایسے موقعوں کے لئے میں احتیاطاً بسکٹوں کے کچھ پیکٹ اپنے سوٹ کیس میں چھپا کر رکھا کرتا تھا.
میرا ارادہ تھا کہ بستر میں لیٹ کر رہی سہی کسر اپنے بسکٹوں سے پوری کرلوں گا‘لیکن اس کا موقع بھی ہاتھ نہ آیا‘ کیونکہ دوبڑے لڑکے میرے کمرے میں سوتے تھے اور وہ دیر تک آج کی پکنک کے خوشگوار پہلوؤں پر بڑی گرم جوشی سے تبصرہ کرتے رہے۔ایک اور مقام پر قدرت اللہ شہاب قیام پاکستان کے ابتدائی ایام کے حوالے سے رقم طراز ہیں۔یہ وہ دور تھا جب ملک کے قیام کے بعد ابتدائی دنوں میں وسائل کی بے حد کمی تھی تاہم لوگوں میں ایک جذبہ تھا جس کے تحت وہ حالات کی مناسبت سے سرگرم تھے۔ انہی حالات میں وہ لکھتے ہیں کہ لارنس روڈ والے فلیٹ میں دو بڑے بیڈ روم اور ایک چھوٹا سا کمرہ تھا‘بسا اوقات اس میں ہم تیس تیس پینتیس پینتیس لوگ گزارہ کرتے تھے‘بہت سے دوست احباب بھارت اور کشمیر سے جان بچا کر ہمارے پاس پہنچ رہے تھے‘سب کے سب انتہائی خستہ حالی اور درماندگی کا شکار تھے‘ کوئی پاپیادہ قافلوں کیساتھ مہینوں کے سفر کے بعد پاکستان پہنچا تھا‘کوئی ان گاڑیوں پر سوار تھا جنہیں جا بجا روک کر لوٹا جاتا تھا‘کوئی طویل عرصے تک مہاجر کیمپوں کی دلدل میں دھنسا رہا تھا‘کسی کو کپڑوں کی حاجت تھی‘ کسی کو علاج معالجے کی ضرورت تھی اور زندگی کیساتھ از سر نو ناطہ جوڑنے کیلئے سب ایک دوسرے کے محتاج تھے‘ایک روز میں نے اپنا بٹوہ کھولا‘ تو اس میں فقط سولہ روپے موجود تھے.
مجھے بڑی تشویش لا حق ہوئی کیونکہ ابھی مہینہ پورا نہیں ہوا تھا اوراگلی تنخواہ میں آٹھ دس روز باقی تھے‘ اس زمانے میں میرے پاس کوئی بینک بیلنس نہ تھا بلکہ اس وقت تک میں نے سرے سے کوئی بینک اکاؤنٹ ہی نہ کھولا تھا بہار‘ بنگال اور اڑیسہ میں میرا قاعدہ تھا کہ میں پہلی تاریخ کو اپنی تنخواہ نقد وصول کرتا‘کچھ پیسے ماں جی کو جموں بھیج دیتا تھا اور باقی رقم مہینے کے آخر تک ٹھکانے لگا دیتا تھا‘اب جو میں نے دیکھا کہ گھر میں دو ڈھائی درجن مہمان اور بٹوے میں صرف سولہ روپے موجود ہیں‘ تو میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے‘میرا واحد اثاثہ ایک انشورنس پالیسی تھی جو چند سال قبل میں نے بھاگلپور میں خریدی تھی انشورنس ایجنٹ مشہور کانگریسی لیڈر اور بعد میں بھارت کے پہلے صدرڈاکٹر راجندرپرشاد کا بیٹا تھا جو پالیسیاں اسکے ذریعہ لی جاتی تھیں وہ ان پر تحفتاًاپنے والد کے آٹو گراف کا ٹیگ بھی ضرور چسپاں کیا کرتا تھا‘میں اپنی پالیسی لیکر انشورنس کمپنی کے دفتر گیا اور منیجر سے کہا کہ واجب الادا رقم وصول کرکے میں بیمہ کی پالیسی سے دست بردار ہوناچاہتا ہوں‘ہندو منیجر کانگرسی لیڈروں کا پرستار نظر آتا تھا.
اس نے مجھے سمجھایا کہ اس آٹو گراف کی وجہ سے یہ پالیسی ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے‘ تیس برس بعد جب یہ پالیسی واجب الادا ہو گی‘ تو اپنے آٹو گراف کی وجہ سے اسکا شمار بے بہا نوادرات میں ہو گا اور یقینی طور پر اس کی اصلی قیمت اس کی عرفی قیمت سے کئی گنازیادہ پڑے گی۔میں نے منیجر کی کاروباری فراست کی تعریف کی‘ لیکن دست برداری کے ارادہ پرمستقل مزاجی سے اڑا رہا‘کچھ مزید ردوکد کے بعد منیجر نے حساب جوڑا‘ اور پالیسی واپس لیکر مجھے تین ہزارسات سو روپے ادا کردئیے‘یہ گراں قدر رقم ہاتھ میں آتے ہی تہی دستی کے لمحات کی یادکافور کی طرح اڑ گئی اور میرا دماغ از سر نو آسمان سے باتیں کرنے لگا۔