خوش قسمت لوگ

مشہور مصنف اور دانشور اشفا ق احمد اپنی نشری تقاریر میں بیان کرتے ہیں کہ میں 1971ء کے انتخابات میں ایک جگہ پر ریٹرننگ آفیسر تھا ہم جلدی جلدی ووٹ ڈلوا رہے تھے وہاں ایک بابا آیا جس نے ریڑھی بنوائی ہوئی تھی وہ معذور تھا اور اس ریڑھی کے ذریعے حرکت کرتاتھا وہ آکے کہنے لگا کہ جی میں ”تلوار نوں ووٹ پانا اے“ میں نے کہ بابا جی تو جہاں کہے گا مہر لگائیں گے لیکن رش زیادہ ہے تھوڑا انتظار کر لو لیکن اس نے کہا کہ نہیں جی میرے پاس ٹائم نہیں ہے وہاں میرے اسسٹنٹ کہنے لگے کہ جی اس کا ابھی ووٹ ڈلوادیں میں نے اس کی خوشنودی کے لئے کہا کہ بابا آپ کی ریڑھی بڑے کمال کی ہے یہ تو نے کہاں سے لی۔ کہنے لگا یہ میں نے خود بنائی ہے پہلے جو بنائی تھی اس کو میں نے بچوں والی سائیکل کے پہئے لگائے تھے وہ پکے پر خوب دوڑتی لیکن کچے میں وہ پھنس جاتی تھی۔ پھر میں نے لکڑی کے موٹے پہئے لگائے تو وہ کچے میں اچھے چلتے تھے اور پکے میں یا سڑک پر بہت شور مچاتے تھے پھر میں نے بیرنگ لگا دیئے بس ہر ہفتے مٹی کا تیل ڈال کر صاف کرنے پڑتے ہیں دیکھئے کہ وہ بابا چٹا ان پڑھ تھا میں نے اس سے کہا کہ بابا یہ تو نے کیسے بنائی وہ کہنے لگا کہ جی میں نے سوچ سوچ کے بنالی۔ میں نے جب اس سے بار بار پوچھا کہ کیا تو نے یہ خود ہی بغیر کسی کی مدد کے بنالی تو وہ بابا کہنے لگا اے دیکھو نہ جی اگربندہ پڑھیا لکھیا نہ ہووے تے فیر دماغ توں ای کم لینا پیندا اے نا۔“ایک کسان تھا اور اس کا بیٹا میرا واقف تھا وہ ایم بی بی ایس کا طالب علم تھا اور فائنل ائر میں تھا گاؤں میں اس کا باپ حقہ پی رہا تھا وہ کہنے لگا کہ اشفاق صاحب میرے بیٹے کو علم دیں جی میں نے کہا کہ کیوں کیا ہوا بہت اچھا علم حاصل کررہا ہے‘ وہ اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے کہنے لگا کہ تو اشفاق صاحب کو بتا۔ وہ لڑکا کہنے لگا کہ جی میں ہارٹ سپیشلسٹ بننا چاہتا ہوں۔اس کا باپ پھر کہنے لگا کہ ”بے وقوف ایک بندے وچ اک دل ھوندا اے او ہندہ علاج کرکے انہوں ٹور دیں گا فیر کسے آؤنائیں تو دنداں دا علم پڑھ۔ بتی ہوندے نئیں کدے نہ کدے کوئی نہ کوئی تے خراب ہووے گا۔ ایس طرح بتی واری اک بندہ تیرے کو ل آئے گا۔“ ایک اور مقام پر اشفاق احمد رقم طراز ہیں کہ  کچھ خوش قسمت ملک ہیں‘جہاں لوگ اپنے مسائل اپنے طور پر یا خود ہی حل کر لیتے ہیں جو ان کے کرنے کے ہوتے ہیں میری ایک نواسی ہے اس نے ڈرائیونگ لائسنس کے لئے اپلائی کیا وہ ایک سکول سے دو تین ماہ ڈرائیونگ کی تعلیم بھی لیتی رہی مجھ سے آکر لڑائی کی کہ نانا یہ کیسی گورنمنٹ ہے‘لائسنس نہیں دیتی‘ وہ خود میں خرابی تسلیم نہیں کرتی تھی بلکہ اسے سسٹم کی خرابی قرار دیتی تھی ایک ماہ بعد اس نے دوبارہ لائسنس کے لئے اپلائی کیا لیکن وہ ٹیسٹ میں پاس نہ ہوئی اور ٹریفک والوں نے کہا کہ بی بی آپ کو ابھی لائسنس نہیں مل سکتا‘ تو وہ رونے لگی‘شدت سے اور کہنے لگی تم بے ایمان آدمی ہو اور تمہارا ہمارا خاندان کے ساتھ کوئی بیر چلا آرہا ہے اور چونکہ تمہاری ہمارے خاندان کے ساتھ لگتی نہیں ہے اس لئے ٹریفک والو تم مجھے لائسنس نہیں دیتے وہ بڑے حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم تو آپ کے خاندان کو نہیں جانتے وہ کہنے لگی‘ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے اور میں اس ظلم پر احتجاج کروں گی اخبار میں بھی لکھوں گی کہ آپ لوگوں نے مجھے لائسنس دینے سے انکار کیا‘ایسا میری امی کے ساتھ اور ایسا ہی سلوک میری نانی کے ساتھ بھی کیا‘جو پرانی گریجویٹ تھیں اور اس طرح ہماری تین ’پیڑھیوں‘(نسلوں)کے ساتھ ظلم ہوتا چلا آرہا ہے جس سے آپ کا ہمارے ساتھ بیرواضح ہوتاہے‘وہ ابھی تک اپنے ذہن میں یہ بات لئے بیٹھی ہے کہ چونکہ ٹریفک پولیس والوں کی میرے خاندان کے ساتھ ناچاقی ہے اور وہ اس کو برا سمجھتے ہیں‘اس لئے ہمیں لائسنس نہیں دیتے اپنی کوتاہی دور کرنے کے بجائے آدمی ہمیشہ دوسرے میں خرابی دیکھتا ہے بندے کی یہ خامی ہے کہ میں اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں اور ہمیشہ دوسرے کی خامی بیان کروں گا۔یہ عجیب انسانی فطرت ہے کبھی آپ اس کا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ عجیب لگے گی خاص طور پر کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب ہم نے خواہش پیدا کردی تو وہ پوری ہو۔ سب سے پہلے تو آپ کے ذہن میں یہ بات پیدا ہوتی ہے کہ اس کو فوراً پورا ہونا چاہئے یہی ہے نا ٗکبھی آپ آئس کریم جمائیں ٗ آپ نے آئس کریم والی مشین تو دیکھی ہوگی نا۔ اب تو بجلی والی آگئی ہے ٗ تو آئس کریم جمانے بیٹھیں تو خدا کے واسطے اس کا ڈھکنا بار بار نہ کھول کر دیکھتے رہیں کہ جمی ہے یا نہیں۔ اس طرح تو وہ کبھی بھی نہیں جمے گی۔ آپ اس کی راہ میں کھڑے نہ ہوں۔ جب آپ نے تہیہ کر لیا ہے کہ اس کو بننا ہے ٗاس میں سارا مصالحہ ڈال کر مشین کو چلانا شروع کردیں اور اس وقت کا انتظار کریں جب وہ پایہ تکمیل کو پہنچے۔میری اور میری آپ کی ایک بڑی بے چینی ہوتی تھی کہ ہم نے اپنی چتری مرغی کے نیچے انڈے رکھے تھے کہ اس میں چوزے نکلیں گے اور ہم دونوں اس بات کے بہت شوقین تھے اب اس کے تیئس دن بعد چوزوں کو نکلنا تھا ٗہم میں یہ خرابی تھی کہ ہر تیسرے چوتھے دن بعد ایک دو انڈے نکال کر انہیں سورج میں کرکے دیکھتے تھے ٗآیا ان کے اندر ایمبریو بنا ہے کہ نہیں ٗتو خاک اس میں سے چوزا نکلنا تھا بار بار اٹھاکے دیکھتے تھے اور پھر جا کر رکھ دیتے تھے  میں تو فرسٹ ائیر میں تھا ہمارے گھر میں ایک کیمرہ آیا اس زمانے میں کیمرہ آنا بڑی کمال کی بات تھی باکس کیمرے بہت کم ہوتے تھے باکس کیمرہ آیا ہمارے قصبے میں آیا لوگ بڑی بڑی دور سے گھوڑوں پر بیٹھ کر دیکھنے آئے اور انہوں نے کہا کہ خان صاحب کے گھر کیمرہ آیا ہے انہوں نے کہا جی کہ تصویر کھینچنی ہے ٗذیلدار صاحب آئے اونٹ پر سوار ہو کے کہ تصویر کھینچنی ہے۔بڑے بھائی بی اے میں پڑھتے تھے ان کو اباجی نے باکس کیمرہ لادیا اب اس میں فلم ڈال کے اس زمانے میں شیشے کی پلیٹ ہوتی تھی پتلی سی Negativeکھینچنے کے لئے اس کو ڈال کے تصویر کھینچی ٗ تو پھر ہم بھائی کے گرد جمع ہوگئے ہمیں نکال کے دکھائیں کیسی ہوتی ہے اس نے کہا نہیں ابھی نہیں۔ہم نے کہا ٗ اس کا پھر کیا فائدہ۔ کیمرہ تو یہ ہوتا ہے آپ نے تصویر کھینچی ہے اور ابھی پوری ہو۔تو ہم کو یہ بتایا گیا کہ اس وقت نہیں آتی ہے تصویر لیکن آتی ضرور ہے لیکن ہماری یہ تربیت نہیں تھی ٹریننگ نہیں تھی۔