قدرت اللہ شہاب ایک کثیر الجہت شخصیت تھے، اپنی یاداشتوں میں وہ لکھتے ہیں کہ ”جو صاحبان ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کرنا چاہیں وہ سوموار اور جمعرات کے روز صبح نو بجے سے 12 بجے دوپہر تک بے روک ٹوک تشریف لے آئیں“۔”بے مقصد کے ملاقاتی اور سفارشی حضرات آنے کی تکلیف نہ اٹھائیں“یہ اس نوٹس بورڈ کی عبارت ہے جو میں نے شروع ہی سے اپنے دفتر کے سامنے لگادیا تھا‘ پہلے تو اس سلیس عبارت کا مفہوم کسی کی سمجھ میں نہ آیا اور پیشہ ور ملاقاتیوں اور سفارشیوں کے علاوہ اور کوئی شخص میرے نزدیک تک نہ پھٹکا‘لیکن رفتہ رفتہ حالات بڑی سرعت سے بدلنے لگے‘پیر اور جمعرات تک کے روز دو کلرک صبح آٹھ بجے سے دفتر کے برآمدے میں بیٹھ جاتے تھے‘ جو جو آتا تھا انکے نام اسی ترتیب سے ایک فہرست میں درج کرتے جاتے تھے اور ملاقاتی اسی فہرست کے مطابق باری باری سب میرے پاس آتے تھے‘اول اول شہر کے حاجت مند لوگ آنا شروع ہوئے پھر آس پاس کے قصبوں کے کچھ لوگ آنے لگے اور کچھ عرصہ کے بعد دور دراز کے دیہات سے ہر طبقہ کے لوگ آنے لگے۔
شروع شروع میں ملاقاتیوں کی تعداد پندرہ بیس کے قریب ہوتی تھی‘ دو مہینہ کے اندر اندر ان کی تعداد سو سوا سو کے لگ بھگ پہنچ گئی اور کچھ عرصہ کے بعد ایسا وقت بھی آیا کہ ملاقات کے روز مجھے تین تین چار چار سو لوگوں کیساتھ ملنا پڑتا تھا‘ایک ایک روز میں اتنے لوگوں کو بھگتنا بڑا صبر آزما مرحلہ ہوتا تھا لیکن جب میں ایمانداری سے جائزہ لیتاہوں تو ملاقاتوں کے یہی چند روز میری ساری ملازمت کا اصلی سرمایہ نظر آتے ہیں‘ معلوم نہیں اسکی وجہ کردار کی کمزوری یا ماحول کی کجی ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ سرکاری کرسی اچھے خاصے انسان کا حلیہ بگاڑ دیتی ہے‘ اسکی فطرت ٹیڑھے ترچھے سانچوں میں ڈھلنے لگتی ہے‘ نگاہ کا زاویہ بہت حد تک بھینگا ہوجاتا ہے دفتر کی فضا میں سانس لینے کے بعد باہر کھلی ہوا میں گھومنے والے ایک دوسری مخلوق نظر آنے لگتے ہیں‘ دفتری ماحول زندگی کے ہر پہلو پر ایک کثیف غبار کی طرح چھا جاتا ہے اور زندگی کی بے اندازہ وسعت سمٹ سمٹا کر ایک چھوٹے سے گرداب میں پھنس کر رہ جاتی ہے۔رشتہ بنی نوع انسان کیساتھ بے حد محدود ہوجاتا ہے اس کے گرد صرف چند مخصوص عناصر رہ جاتے ہیں جو اسے مکڑی کے جالے کی طرح اپنے تانے بانے میں جکڑے رکھتے ہیں۔
ایک اور مقام پر قدرت اللہ شہاب چین کے وزیراعظم چو این لائی سے ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کی گفتگو کو مسٹر خراس اور میں قلمبند کرنے کی کوشش کررہے تھے یوں تو وہ صرف چینی زبان بولتے تھے لیکن یقینا انہیں انگریزی زبان پر بھی ضرور عبور حاصل ہوگا ان کا ترجمان جب انکی گفتگو کا انگریزی میں ترجمہ کرتا تھا تو کئی بار مسٹر چو این لائی اسے ٹوک کر اس کے ترجمہ کی اصلاح بھی کر دیتے تھے۔ جب مسٹر چو این لائی واقعات عالم پر تبصرہ کررہے تھے ایک چینی لڑکی وقتاً فوقتاً ہمیں چینی چائے کے تازہ مگ تقسیم کرتی رہتی تھی یہ ابلتا ہوا گرم پانی تھا جس میں چائے کی ایک یا دو پتیاں تیر رہی ہوتی تھیں اس میں دودھ یا شکر ملانے کا رواج نہ تھا چائے ڈھانپنے کے لئے ہر مگ کا ایک خوبصورت سا ڈھکنا بھی ہوتا تھا اچانک میں نے محسوس کیا کہ وزیراعظم چو این لائی روانی سے بولتے بولتے کس قدر ٹھٹھک جاتے ہیں اور ان کی نگاہیں بار بار میری جانب اٹھ رہی ہیں۔
مجھے خیال آیا کہ شاید میرے بیٹھنے کے انداز میں کوئی کجی یا قباحت پیدا ہوگئی ہے میں نے فوراً پینترا بدل کر پہلو تبدیل کر لیا لیکن اس کے باوجود مسٹر چو این لائی کی نظریں بدستور میری طرف اٹھتی رہیں اس پر پریشان ہو کر میں کسی قدر جھینپا تو انہوں نے چائے تقسیم کرنے والی لڑکی کو بلا کر کچھ کہا وہ میرا مگ اٹھا کر ان کے پاس لے گئی مسٹر چو این لائی نے مگ کا ڈھکن اٹھا کر اسے دکھایا کہ یہ چھوٹا ہے اور اس مگ پر اچھی طرح نہیں جمتا لڑکی کا چہرہ عرق ندامت میں شرابور ہوگیا اور وہ جا کر میرے لئے چائے کا ایک اور مگ لے آئی اس کے بعد مسٹر چو این لائی سکون سے بیٹھ گئے اور اپنے تبصرے میں بدستور مصروف ہوگئے ایک نہایت سنجیدہ تجزئیے کے دوران ایک انتہائی کثیر المشاغل شخص کے ذہن کا اس قدر باریک تفصیل کی طرف منتقل ہونا میرے لئے بے حد حیرت ناک تھا۔ (شہاب نامہ سے اقتباس)