مشہور مصنف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی مختلف شہروں میں گھومنے پھرنے کے بعد وہاں کا تذکرہ دلچسپ انداز میں کرتے ہیں،ایک مقام پروہ لکھتے ہیں کہ گوجرانوالہ شاید واحد ایسا شہر ہے جوخود نہیں بلکہ اس کے شہری قابل دید ہیں صحت مند اور ہنر مند!نام پانے میں اس کے باشندوں کی مثال جمنا سے ادھر نہیں ملتی‘ دنیا کے شہر اپنی مصنوعات اور اپنا مال برآمد کرتے ہیں‘گوجرانوالہ نے اپنے ناموربرآمد کئے‘ اپنے اہل علم اور اہل فن بیرون شہر بھیجے‘اس وقت پورے پاکستان میں جدید آفسٹ چھاپے خانے‘ ہائیڈرالک پریس‘ کولڈ اسٹوریج‘ صابن‘ سیمنٹ اور شکر کے پلانٹ اورطرح طرح کے کارخانے چلا رہے ہیں جن کا ذرا ذرا سا پرزہ یہی گوجرانوالہ اور آس پاس کے شہروں کے مستریوں نے خود ڈھالا ہے اپنی اس خداداد صلاحیت کے معاملے میں پاکستان کے کاریگر دنیا بھر میں مشہور ہیں سات آٹھ برس ادھر اٹلی والوں نے آ کر لاہور میں صابن سازی کا ایک پلانٹ لگایا تھا محمد صدیق نے اس میں ہاتھ بٹایا تھا بس! لیکن کچھ عرصے بعد وہ خود صابن سازی کے پورے پورے پلانٹ بنانے لگے کہتے ہیں کہ ایک اطالوی ماہر کو استاد کیا تھا بعد میں وہ استاد کو سلام کرنے اٹلی گئے اور مشین سازی کی صنعت دیکھنے برطانیہ پہنچے اس کا بہت دلچسپ قصہ محمد صدیق صاحب نے خود سنایا۔
جب میں لندن میں گیا تو وہاں ایک ورکشاپ تھی جہاں مشینوں کو ری کنڈیشن کرتے تھے سب سے پہلے انہوں نے یہ سوال کیا کہ آپ پاکستانی ہیں؟ میں نے کہا جی ہاں پاکستانی ہوں‘ تو انہوں نے بڑے مایوس لہجے میں کہا کہ آپ برانہ منائیں آپ ذرا یہاں ٹھہر جائیں تو اس کے بعد ہم آپ کو اجازت دیں گے اندرراؤنڈ لگانے کے لئے اس کی وجہ پھر ہم نے دریافت کی تو کہنے لگے کہ جی پاکستان سے جو بھی آدمی آتا ہے اسے ہم بالکل نئی مشینری دکھاتے ہیں اور کچھ روز بعد پاکستان جا کر دیکھتے ہیں تو وہاں بالکل ویسی ہی مشینری تیار پڑی ہوتی ہے اور حقیقت ہے کہ میرے ساتھ ایسا ہوا میں نے ڈیڑھ مہینہ لندن میں گزارا تو ان لوگوں نے مجھے اتنا وقت دیا کہ جو مشینری آپ دیکھنا چاہتے ہیں اس کو دیکھ لیں لیکن آپ کو سوال پوچھنے کی اجازت نہیں تو بڑی سے بڑی ورکشاپ انہوں نے مجھے دکھا دی لیکن سوال پوچھنے کی اجازت نہیں دی‘ میں باہر آ گیا۔ ایک اورمقام پر لاہور کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ لاہور والے زندہ دلان پنجاب کہلاتے ہیں میں نے لاہور کو دیکھا تو ویسا ہی زندہ دل پایا زندگی کو ایسا جی کھول کر کس نے برتا ہوگا‘ جب دوسری بستیوں کا یہ حال ہے کہ دیکھ کر دل ڈوبا جائے‘لاہور ایسا جیتا جاگتا نگر ہے جو لاکھ اجڑا پھر بھی آباد ہے شام ہوئی ہے تو لوگ گھروں سے باہر آگئے ہیں اور وہ بھی سرشاری کے عالم میں‘ لوگ کھا رہے ہیں‘پی رہے ہیں‘باغوں کو جارہے ہیں۔
یہی لاہور والے تو ہیں کہ ادھر بارش کا پہلا چھینٹا پڑا اور یہ تانگوں میں لدپھند کر شالا ماریا جہانگیر کے مقبرے یا باغ جناح کی طرف چل پڑے‘ساتھ میں کھانوں سے بھرے برتن ہیں آموں سے بھری پیٹیاں ہیں لوگ گارہے ہیں کھیل رہے ہیں‘کھانے پر چھینا جھپٹی کررہے ہیں اور جھولے جھول رہے ہیں اور لطف یہ کہ پوری بارش کا انتظار بھی نہیں کیا ایک ذرا سا چھینٹا پڑا اور آدھا لاہور گھروں سے سے باہر نکل کھڑا ہوا‘ کھانے پینے کا تو یہ حال ہے کہ میں رکشہ پر بیٹھ کر کہیں جارہا تھا معلوم ہوا کہ آگے مجمع کی وجہ سے سڑک بند ہے‘ پوچھنے پر پتہ چلا کہ کڑھاؤ سے گرم جلیبیاں نکل رہی ہیں یا کھولتے ہوئے سموسے اتر رہے ہیں اور سامنے کھڑا ہوا مجمع کھانے میں منہمک ہے‘لاہور میں نہاری کی سو سے زیادہ دکانیں ہیں میرے ایک دوست مجھے اندر کہیں گلیوں کے ایک تنگ چائے خانے میں لے گئے وہاں بھی بڑا مجمع تھا معلوم ہوا کہ یہاں بہترین کشمیری چائے ملتی ہے باغوں میں جانے کی جیسی روایت لاہور میں ہے اور کہیں نہیں‘حسن اتفاق سے ادھر اس علاقے کو کچھ ایسے حکام مل گئے جنہوں نے شہر میں بڑے بڑے باغ لگادیئے ماڈل ٹاؤن کے درمیان جو بہت بڑی زمین خالی پڑی تھی اس میں دائرہ نما پارک بن گیا ہے ملک میں گھوڑدوڑبند ہوگئی تو لاہور والوں نے لق ودق ریس کورس گراؤنڈ کو با غ بنادیا لارنس گارڈن تو پہلے سے تھا مگر اسے باغ جناح کا نام دینے کے بعد صحیح معنوں میں گل وگلزار بنادیا گیا‘ راولپنڈی کی سیر کے بعد لکھتے ہیں کہ‘ پورے شہر میں لوگ پرانی عمارتوں کو توڑ توڑ کر فلیٹ آفس‘ مارکیٹیں اور دکانیں بناتے چلے جا رہے ہیں۔
تمام بڑی سڑکوں کے کنارے اب دکانیں ہی دکانیں ہیں اور ایک عجیب بات یہ ہے کہ یہ عالم میں نے پشاور سے کلکتے تک دیکھا کیا گوجرانوالہ کیا آگرہ‘ کیا کانپور اور کیا بنارس‘ اس ڈیڑھ ہزار میل کی پٹی میں اتنی مارکیٹیں اور اتنی دکانیں تعمیر ہو رہی ہیں کہ ان کی قطار کو شمار کرنا مشکل ہے راہ میں پڑنے والے دیہات میں بھی دکانوں پر دکانیں بن رہی ہیں ہر شخص کچھ نا کچھ بیچ رہا ہے جو بیچ نہیں رہا ہے وہ کچھ نہ کچھ خرید رہا ہے جہاں لوگ کھڑے کھڑے مالٹے اور گنے کا رس پیتے تھے اور روٹی کے ساتھ مرغ چھولے کھایا کرتے تھے وہاں اب وہ کھڑے کھڑے جدید مشینوں پرفوٹو کاپی نکلوا رہے ہیں‘ ایک کیسٹ کے گانے پلک جھپکتے دوسرے کیسٹ میں اتروا رہے ہیں جاپانی کیمروں سے نکلی ہوئی امریکن رنگین فلمیں اپنے سامنے دھلوا کر کمپیوٹرائزڈ مشینوں سے چمکدار تصویریں نکلوا رہے ہیں مرغ چھولے اب ائرکنڈیشنڈ ریستورانوں کے اندر ملتے ہیں اور گنے کیساتھ نہ صرف لیموں بلکہ پودینے کے پتے اور ادرک کے ٹکڑے بھی پس رہے ہیں۔اب جاپان کی بنی ہوئی ویگنیں چل رہی ہیں۔