مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد اپنے منفرد انداز میں زندگی کے مشاہدات بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ اگر زندگی میں آپ کے قریب سے کوئی لڑکھراتاہوا‘چکر کاٹتا ہوا خالی ٹین کا ڈبہ گزرے تو آپ رک جائیں اور اس پر توجہ دیں آپ کی زندگیوں کے قریب سے جو ٹین کا ڈبہ گزرتا ہے وہ غریب آدمی ہوتا ہے‘ مخلص شخص ہوتا ہے معذور آدمی ہوتا ہے اور ان پڑھ ہوتا ہے اسے معاشرے میں کچھ نہیں ملا ہوتا آپ نے اس کو نہ روٹی دینی ہے‘ نہ کپڑا دینا ہے‘ نہ مقام یا بینک بیلنس عطا کرنا ہے بس اس کی عزت نفس لوٹانی ہے۔ اسی طرح ہم سب کا یہ فرض بنتا ہے کہ انسان کی عزت کریں بس دوسرے انسان کی خیریت دریافت کرنی ہے۔ حال احوال پوچھنا ہے ٹین کے یہ کھڑاکھڑاتے ہوئے ڈبے جو آپ کے ارگرد سے ہر وقت گزرتے رہتے ہیں اور ہم ان سے بے توجہ ہوا کر اپنی زندگی اپنی مرضی سے بسر کرتے رہتے ہیں لیکن ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ان کو اٹھائیں اور انہیں ضائع ہونے سے بچائیں اور اس ضائع ہونے سے بچنے کے لئے آپ کو اپنی گرہ سے کچھ بھی خرچ نہیں کرنا ہے۔
گزشتہ مارچ کے مہینے میں غیر متوقع طور پر سردی کی ایسی شدید لہر آگئی کہ وہ ہم سب سے برداشت کرنا مشکل ہوگئی اور ہم حیران تھے کیونکہ ایسی سردی ہم نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہ دیکھی تھی نہ سنی تھی۔ مارچ ایک طرح سے گرمیوں یا بہار کی ابتداء کا مہینہ ہوتا ہے‘ اس طرح کی سردی واقعی حیران کن ہے اور ہم تو سردی کو پتنگیں وغیرہ اڑا کر الوداع کہہ چکے ہوئے تھے‘ اس سردی سے جہاں ہمیں تھوڑی سی تکلیف ہوئی وہاں خوشی بھی ہوئی کہ چلو سردی اور زیادہ لمبی چلی اور گرمی کم ہوئی۔ میں اپنے گھر کے پاس ایک بڑی سی گراؤنڈ میں لمبا کوٹ پہن کر اور کمبل لے کر وہاں بیٹھا اس خنک ہوا سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ بچے کھیل رہے تھے اور مزے کی ہوا چل رہی تھی۔ میں اس ٹھنڈی ہوا سے لطف لے رہا تھا اور طرح طرح کے خیالات ذہن میں آتے تھے اور میں شاید اپنے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ جس طرح میں آپ سے عرض کیا کرتا ہوں کہ آپ اپنے ساتھ بیٹھنے کی عادت ڈالیں۔ ہم سارا وقت لوگوں کے حوالے کردیتے ہیں‘سارا وقت بولتے رہتے ہیں لیکن اپنے آپ کو وقت نہیں دے پاتے ہیں‘ میں وہاں بیٹھا ہوا تھا کہ مجھے وہاں ایک عجیب سا شور سنائی دیا‘ ایک ٹین کا خالی ڈبہ تھا اور وہ بڑی تیزی سے ہوا کے دباؤ سے لڑھکتا جارہا تھا اور اس نے اس خاموش فضا میں ایسا شور مچایا ہوا تھا کہ خدا کی پناہ۔
وہ شور مچاتا ہوا جاتا پھر ہوا کے دباؤ سے پلٹتا اور دوسری طرف کو لڑھکنا شروع کردیتا تھا جب دائیں طرف کو چلتا تو اس کی آواز بدل جاتی تھی۔ جب وہ لمبائی کے رخ بائیں طرف چلتا تو اسکی آواز بدل جاتی‘ میں نے جاکر اس ٹین کے شریر ڈبے کو پکڑ لیا۔ میری آرزو یہ تھی کہ یہ ڈبہ فنا ہونے سے کسی طرح بچ جائے کیونکہ یہ آگے جاکر کسی کھائی میں گرے گا اور پھر اس کے اوپر بارش پڑے گی۔ زمین میں بے چارہ دھنس جائے گا اور یہ ری سائیکل ہونے سے رہ جائے گا۔ میں اسے اٹھا کر اپنے ساتھ لے آیا اور اسے بڑے سے کوڑے دان میں پھینک دیا اور اسے اس توقع پر وہاں رکھا کہ اب اسے اس کے اگلے مقام پر پہنچ جانا چاہئے‘ بجائے اس کے کہ ایک آوارہ گرد بچے یا ایک پلے کی طرح یہ بھاگا پھرے۔ جب میں واپس جاکر بیٹھا تو مجھے خیال آیا کہ زندگی میں ایک مقام پر ایسا ہی لڑھکتا ہوا ایک ڈبہ تھا اور میرا کوئی راستہ متعین نہیں تھا۔ آج کے حالات بڑے ہی پراگندہ ہیں‘ اس زمانے میں تو بڑی ہی آسانیاں تھیں‘ ایک رات میں نے ایک فیچر لکھا‘ اس بات کو اب توچون برس ہو گئے ہیں‘اس فیچر میں جمہوریت نہیں تھی۔
ایک وادی کی زندگی کا ذکر تھا‘اس کا نام تھا ”Abraham Lincoln Walks at Midnight“ یہ ایک بڑی مشہور نظم تھی اور میں نے اس کو ٹائٹل بنا کر فیچر لکھا اس میں تحریر تھا کہ کس طرح ابراہم لنکن کشمیر کی وادی میں آتا ہے جو ڈیموکریسی کا اتنا بڑا علمبردار تھا اور وہ دیکھتا ہے کہ کشمیریوں کے ساتھ کتنا ظلم ہو رہا ہے۔میں نے ریڈیو پر سننے والوں کواپنے فیچر سے پڑھ کر سنایا کہ کشمیرکی وادی میں پہنچ کر ابراہم لنکن تقریر کرتا ہے اورکشمیر کے لوگ اس کے ارد گردکھڑے ہو جاتے ہیں‘ ابراہم لنکن انہیں مخاطب کرکے کہتا ہے کہ ”باوصف اس کے تمہارے اوپر اتنا بوجھ پڑ رہا ہے اورتمہاری زندگی مشکل ہے لیکن میں نے ایسے آثار دیکھے ہیں کہ اتنی مشکل زندگی بسر کرنے کے بعد آدمی آسانیوں سے ہمکنار ہوتا ہے‘جب میں نے یہ فیچر پڑھا اور یہ براڈ کاسٹ ہو گیا اور مجھے تب بہت بڑے آرٹسٹوں کا سہارا تھا یہ پروگرام رات کے نوبجکر تیس منٹ پر ختم ہوا تو میرے سٹیشن ڈائریکٹر محمود نظامی صاحب جو طبیعت کے ذرا اور طرح کے آدمی تھے۔ ان کی طبیعت بڑی سخت تھی کم وقت میں زیادہ کام کرنا چاہتے تھے‘ ان کامجھے فون آیا اور انہوں نے مجھے کہا کہ I Take Great Pride اس دن کے بعد سے اب تک میرے پاؤں زمین پر نہیں لگتے ہیں مجھے کسی استاد نے کچھ نہیں سکھایا لیکن مہربانوں نے عالم بے خیالی میں دل کی سچائی کیساتھ اس طرح سے Appriciate کیا کہ پھر میں کسی اور سہارے کا متلاشی یا طلبگار نہیں رہا۔