میرے افسر

سرکاری ملازمتوں میں ہر طرح کے لوگوں سے واسطہ رہتا ہے اسی کی تفصیل میں سابق اعلیٰ سرکاری عہدیدار آغا ناصر لکھتے ہیں میں نے ساری عمر سرکاری نیم سرکاری ملازمتوں میں گزاری‘ ملازمت کا آغاز معمولی سی سطح سے کیا ریڈیو میں ان دنوں پروگرام پروڈیوسر کی تنخواہ دو سور وپے تھی شاید مجھے اس سے بہتر ملازمت مل سکتی مگر میری ترجیحات میں سب سے پہلےJob Satisfaction تھی ریڈیو ان دنوں اگرچہ سو فیصد سرکاری محکمہ تھا مگر اس کے باوجود اس میں بہت کچھ تھا جسکی مجھے تمنا تھی میں نے یہ سب قبول کیا صرف اسلئے کہ ملازمت میری پسند کی تھی اور بڑی حد تک Job Satisfactionکی شرط کو پورا کرتی تھی‘ سرکاری ملازمت میں انسان کو ہر طرح کے افسروں سے واسطہ پڑتا ہے میرے نزدیک افسروں کی تین اقسام ہیں‘بڑے افسر اور بہت ہی بڑے افسر حسن اتفاق سے مجھے زیادہ بہت ہی بڑے افسروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور زندگی میں ان سے بڑی قربت رہی‘ان افسروں کے بارے میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے میں ایسا کرنے سے گریز کروں گا کہ کسی کو بام عروج پر اور کسی کو قصداً تنزل میں پہنچانے کی کوشش کروں میرا مقصد کسی کی پگڑی اچھالنا یا کسی کا درجہ لوگوں کی نظروں میں بلند کرنا نہیں ہے میں صرف چند مثالیں دے کر صرف چند ایسے افسروں کی بات کروں گا جن کے ساتھ میں نے کام کیا ہمارے ایک بڑے شاعر جب سرکاری افسر بنائے گئے وہ ایک بڑے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود اپنے سٹاف ممبران کی حد درجہ عزت کرتے تھے اور انکے دفتری کا م اور ذاتی نوعیت کے مسائل کو سلجھانے میں اپنی تمام کوشش کرتے تھے کسی سیکرٹری‘وزیر یہاں تک کہ صدر اور وزیراعظم تک کی خواہ مخواہ تعریف ہرگز نہیں کرتے تھے اپنے سٹاف کو ہر طرح کا تحفظ دیتے تھے میں نے جن افسروں کا ذکر نام لئے بغیر کیا ہے وہ سب ان محکموں سے متعلق تھے جہاں میں کام کرتا رہا تھا میرا خیال ہے میرے ساتھ کام کرنیوالے ان کوآسانی سے شناخت کرلیں گے ایک بڑے معروف سینئر سول سرونٹ جو ساری عمر حکومت کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے بڑے مرنجان مرنج انسان تھے انکے فعل وعمل سے یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ حکومت کے اسقدر اہم عہدیدار ہیں ایک سیکرٹری کی سطح کے افسر ہونے کے باوجود نہایت سادہ اور معمولی آدمی کی زندگی گزارتے تھے ان کو ایک دن جون کی جلتی دوپہر میں میں نے نیف ڈیک سینما میں ٹکٹ کی کھڑکی کے باہر قطار میں اپنی بیوی کیساتھ کھڑے دیکھا جو خود بھی ایک بہت اہم این جی او کی سربراہ تھیں جب میں نے ان کی توجہ اس طرف دلائی تو انہوں نے بڑی سادگی سے جواب دیا سب ہی کھڑے ہیں تو پھر ہمارے قطار میں کھڑے ہونے میں کیا حرج ہے ایک اور بڑے افسر جو کسی کھاتے پیتے خاندان سے تعلق رکھتے تھے انکی شہرت تھی کہ حاجت مند سٹاف میں اپنی جیب سے رقم تقسیم کرتے تھے ایسے اور بھی بہت سے افسروں کے نام میرے ذہن میں آتے ہیں جو اپنی اعلیٰ کارکردگی‘ احساس ذمہ داری‘نیک دلی اور بلند اخلاق کے سبب شہرت اور مقبولیت کے مالک بنے اور جن کی مثالیں دی جاتی تھیں۔