مال ودولت کی حقیقت

حکایات سعدی میں موجود ایک عبرت انگیز بیان میں مال و دولت کو بھلائی کیلئے خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، کہا جاتا ہے کہ ایک شخص بہت امیر تھا بہت کنجوس مکھی چوس ایسا کہ نہ اپنے اوپر خرچ کرتا تھا نہ اپنے بال بچوں پر گویا مال جمع کرنے کی ہوس نے اسے اپنا قیدی بنالیا تھا اور روپیہ پیسہ اس کی قید میں پھنس کر رہ گیا تھا جسکی رہائی کی کوئی صورت نہ تھی اس شخص کا بیٹا ہمیشہ اس فکر میں رہتا تھا کہ کسی طرح اسے یہ معلوم ہو جائے کہ اس کا باپ دولت کسی جگہ جمع کرتا ہے بالآخر ایک دن وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگیا اس نے کنجوس کے خزانے کا سراغ لگالیا اور جب وہ باہر گیا ہوا تھا تو سارا سونا اور چاندی نکال کر انکی جگہ پتھر رکھ دیا‘ با پ جس قدر کنجوس تھا بیٹااس درجے کا بدعقل تھا مال ہاتھ آیا تو اسنے راگ رنگ کی محفلیں آراستہ کیں اور مفت کا مال بہت بے رحمی سے خرچ کرنے لگا کنجوس پر راز کھلا تو اس نے اپنا سر پیٹ لیا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا اب تو صورتحال یہ تھی کہ باپ فکر اور غم کی وجہ سے ساری رات جاگتا رہتاتھا اور بیٹا رقص و سرود کی محفل میں بیدار رہتا تھا‘ مال ضائع ہونے سے پہلے اگر وہ کنجوس یہ سمجھ لیتا تو اسے یقینا فائدہ پہنچ سکتا تھاکہ مال تو اسلئے ہوتا ہے کہ انسان اپنے بال بچوں کی جائز ضرورتوں اور بھلائی میں خرچ کرے۔
کنجوس کی مثال خزانے کے سانپ کی سی ہوتی ہے کہ نہ وہ اس سے خود کسی طرح کافائدہ اٹھا سکتا ہے اور نہ دوسروں کو فائدہ اٹھانے دیتا ہے وہ کوڑی کوڑی جوڑتا ہے اور بھرا خزانہ دوسروں کیلئے چھوڑ جاتا ہے‘ حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں بخیلی کی مذمت کی ہے اور ایسے لوگوں کو انکے اس انجام کی طرف توجہ دلائی ہے جس سے وہ لازمی طورپر دوچار ہوتے ہیں ایک دن موت کا فرشتہ اچانک  انہیں انکے مال و متاع سے جدا کردیتا ہے۔ اس سے ملتے جلتے موضوع کو شاہ بلیغ الدین نے اپنی تقاریر میں بھی چھیڑا ہے اور کہا ہے کہ ایک خاتون گزری ہیں‘ نیک اور دیندار مالدار خاوند کی بیوی تھیں‘ ان کاگھر جس بستی میں تھا اس کے قریب ایک عام سڑک گزر رہی تھی‘ دیہات کے لوگ اپنی بستیوں سے چل کر اس سڑک تک آتے اور بسوں کے ذریعے پھر شہروں میں جاتے‘کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا کہ وہ جب پہنچتے تو بس کا آخری وقت ختم ہو چکا ہوتا‘ رات گہری ہو چکی ہوتی اب ان مسافروں کو بس نہ ملنے کی وجہ سے انتظار میں بیٹھنا پڑتا اور بیٹھنے کیلئے کوئی خاص جگہ بھی بنی ہوئی نہیں تھی، اس نیک عورت نے جس کا شوہر خوشحال تھا اپنے خاوند کو تجویز پیش کی کہ کیوں نہ ہم مسافروں کیلئے ایک چھوٹاسا مسافر خانہ بنادیں تاکہ وقت بے وقت لوگ اگر آئیں اور ان کو سواری نہ ملے تو وہ لوگ ایک کونہ میں بیٹھ کر وقت گزارلیں۔

 خاوند نے مسافر خانہ بنوادیا‘ لوگوں کو بڑی آسانی ہوگئی‘ جب وہ لو گ آتے تو اس گھر میں بیٹھ کر تھوڑی دیر انتظار کرلیتے‘ پھر اس نیک عورت کو خیال آیا کہ کیوں نہ ان مسافروں کیلئے چائے پانی کا تھوڑا سا انتظام ہو جائے چنانچہ اس کو جو جیب خرچ ملتا تھا اس نے اس میں سے مسافروں کیلئے چائے پانی کا نظم کردیا‘اب مسافر اور خوش ہو گئے اور اس عورت کو دعائیں دینے لگے‘ وقت کیساتھ ساتھ لوگوں میں یہ بات بہت پسند کی جانے لگی کہ اللہ کی نیک بندی نے لوگوں کی تکلیف کو دور کردیا حتیٰ کہ اس کو اور چاہت ہوئی‘ اس نے اپنے خاوند سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے ہم اگر کھانے کے وقت ان مسافروں کوکھانا بھی کھلا دیا کریں تواس میں کون سی بڑی بات ہے‘ اللہ کے دئیے ہوئے میں سے ہم خرچ کریں گے‘ چنانچہ خاوند مان گیا‘ نیک بیویاں خاوند سے نیکی کے کام کروایا کرتی ہیں‘ چنانچہ شوہر نے مسافروں کے لئے کھانے کا انتظام بھی کر دیا لہٰذا جب مسافروں کو کھانا بھی ملنے لگا تو بہت سے مسافر رات میں وہاں ٹھہر جاتے اور اگلے روز بس پکڑ کر روانہ ہو جاتے یہاں تک کہ وہاں پر سو پچا س مسافر رہنے لگے‘ کھاناپکتا لوگ کھاتے اس کے لئے دعائیں کرتے۔