مشہور منصف اور دانشور اشفاق احمد اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے پچھلی باتیں بڑی شدت‘ صفائی اور جزویات کیساتھ یاد آتی چلی جا رہی ہیں لیکن شکر ہے کہ ان میں کوئی ایسی نا خوشگوار بات نہیں ہے صرف اس بات کا ان یادوں میں ضرور احساس پایا جاتا ہے کہ وہ لوگ اور وہ زمانے جس میں شفقت و محبت اور انس زیادہ تھا وہ کہاں چلے گئے اور ہم اس قدر کیوں مصروف ہو گئے‘ ہم شاہراہ ریشم پر چل رہے تھے اور ہمیں شام پانچ چھ بجے کے قریب چلاس پہنچنا تھا‘چلاس پہاڑی علاقہ ہے اور کافی اونچائی پر ہے‘ یہ خوبصورت علاقہ ہے اوراس کے پہاڑوں کے شگافوں میں ایک سیاہ رنگ کی دوائی سلاجیت پیدا ہوتی ہے وہ بہت قیمتی ہوتی ہے ہمارے لیڈرنے وہاں رکنے کا بندوبست کیا تھا اوروہاں ایک سکول ماسٹر کے گھر پر ہمارے ٹھہرنے کاانتظام تھا‘جب ہم وہاں پہنچے تو شام پانچ کی بجائے ہمیں رات کے دس بجے گئے‘اس دیر کی بابت ہم سب نے فیصلہ کیا کہ اتنی رات کو کسی کے گھر جانا برا لگتا ہے چنانچہ ایک صاف سے پہاڑ پر جس پر ایک عدد سرکاری بتی بھی لگی تھی ہم اپنے بستر کھول کر اس بتی کے نیچے بیٹھ گئے‘بڑی مزیدارہوا چل رہی تھی وہاں قریب ہی پانی کا ایک نل تھا جو کسی بہت ہی خوشگوار چشمے کے ساتھ وابستہ تھا۔
ہم وہاں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک بہت خوفناک طوفان چلنے لگا۔ تیز ہوا کے اس طوفان سے عجیب طرح کا ڈر لگ رہا تھا‘اس تیز ہوا کے سبب ریت بھی اڑنے لگی‘ جن لوگوں نے چلاس دیکھا ہے انہیں پتہ ہو گاکہ وہاں اگر تقریباً دو کلو میٹر کا فاصلہ طے کریں تو ریگستان شروع ہو جاتا ہے اور پہاڑوں پر چلتے ہوئے اچانک حد نگاہ تک ریت دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے اس تیز طوفان کے ساتھ ہی تیز بارش بھی ہونے لگی اور اولے بھی پڑنے لگے‘ہمارے پاس Protection کیلئے کوئی چیز یا جگہ نہ تھی‘اس موقع پر ہمارے لیڈر عمر بقری مرحوم نے کہا کہ ماسٹر صاحب کے گھر چلنا چاہئے خیر ہم نے اس اندھیرے اور طوفان میں آخرکار گھر تلاش کر ہی لیا‘جب وہاں پہنچے تو ماسٹر صاحب پریشان کھڑے تھے اور ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کسی کے سوئم پر گئے تھے لیکن اپنی بیوی کو اشارہ دے کر گئے تھے کہ میرے دوست آئیں گے ایک اور مقام پر اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ شک کے حوالے سے مجھے بڑی گزری باتیں یاد آ رہی ہیں‘ جوانی میں مجھے درختوں اور پودوں کے ساتھ بڑا شغف تھا۔
اس وقت میرے پاس ایک چھوٹی آری ہوا کرتی تھی جس سے میں درختوں کی شاخیں کاٹتا تھا اور ان کی اپنی مرضی کے مطابق تراش خراش کیا کرتا تھا اور ہمارے ہمسایوں کا ایک بچہ جو پانچویں‘ چھٹی میں پڑھتا ہوگا۔ وہ اس ولایتی آری میں بہت دلچسپی لیتاتھا ایک دو مرتبہ مجھ سے دیکھ بھی چکا تھا اور اسے ہاتھ سے چھو کر بھی دیکھ چکا تھا ایک روز میں نے اپنی وہ آری بہت تلاش کی لیکن مجھے نہ ملی۔ میں نے اپنے کمرے اور ہر جگہ اسے تلاش کیالیکن بے سود۔ اب جب میں گھر سے باہر نکلا تو میں نے پڑوس کے اس لڑکے کو دیکھا اس کے چہرے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ میری آری اس نے ہی چرائی ہے۔اس کی شکل‘ صورت‘ چلنے بات کرنے کا انداز‘سب بدل گیا تھا۔ جیسے جو ملک دوسرے پر حملہ کرنا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ Culprit ہے یا اس نے کوئی ایسی کوتاہی کی ہے جو ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوئی اور ان کو یہ لگنے لگتا ہے کہ اس میں یہ‘ یہ خرابی ہے اور مجھے بھی پڑوس کے اس لڑکے پر سارے شک وارد ہونے لگے۔ اب مجھے ایسے لگتا کہ جس طرح وہ پہلے مسکراتا تھا‘ اب ویسے نہیں مسکراتا۔ مجھے ایسے لگتا ہے۔
جیسے وہ مجھے اپنے دانتوں کے ساتھ چڑارہا ہو۔اس کے کان جو پہلے چپٹے تھے‘ وہ اب مجھے کھڑے دکھائی دیتے اور اس کی آنکھوں میں ایسی چیز مجھے دکھائی دیتی جو ایک آری چور کی آنکھوں میں نظر آ سکتی ہے لیکن مجھے اس بات پر بڑی تکلیف ہوئی جب میں نے اس آری کو گھر میں موجود پایا کیونکہ میں ہی اس آری کو اٹھا کر گھر کے اندر آیا تھا اور ایک دن ایسے ہی اخباروں کی الٹ پلٹ میں مجھے وہ آری مل گئی‘ جب مجھے وہ آری مل گئی اور میں شرمندگی کے عالم میں باہر نکلا تو یقین کیجئے وہی لڑکا اپنی ساری خوبصورتیوں اور بھولے پن کیساتھ اور ویسی ہی معصومیت کیساتھ مجھے نظر آ رہاتھا۔ میں کہاں تک آپ کو یہ باتیں بتا تا چلا جاؤں‘ آپ خود سمجھدار ہیں اور جانتے ہیں شک کی کیفیت میں پوری بات ہاتھ میں نہیں آتی۔ ہماری ریڈیو کی ایک یونین ہوا کرتی تھی۔ اس میں ہم کچھ نئی باتیں سوچتے تھے۔ اپنے آپ کو یا کارکردگی بہتر بنانے کیلئے اور سننے والوں کو آسانیاں عطا کرنے کیلئے۔ اس دور میں ریڈیو کا خاصا کام ہوا کرتا تھا۔ ہماری یونین کے ایک صدر تھے۔
انہوں نے ایک روز میٹنگ میں یہ کہا کہ ظاہر ہے کہ اجلاس میں آپ خرابیاں ہی بیان کریں گے اور میں آپ لوگوں سے یہ درخواست کروں گا کہ آپ تیرہ اور پندرہ منٹ تک جتنی برائیاں بیان کر سکتے ہیں، کریں۔ لیکن پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں کیونکہ کسی نے ہمیں کوئی تعمیری چیز تو بتانی نہیں، نقص ہی نکالنے ہیں اور بہتر یہی ہے کہ آپ ایسا کرلیں۔ ہمارا ریڈیو سٹیشن نیا نیا بنا تھا تو بارش میں اس کی چھتوں پر ایک تو پانی کھڑا ہوجاتا تھا اور دوسراکھڑکی کے اندر سے پانی کی اتنی دھاریں آجاتیں کہ کاغذ اور ہم خود بھی بھیگ جاتے، ایک روز ایسی ہی بارش میں ہم سب بیٹھ کر اس کو تعمیر کرنے والے کو سنانے لگے کہ ایسا ہی ہونا تھا، بیچ سے پیسے جو کھالئے ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے ساتھ ہمارے ایک ساتھی قدیر ملک وہ صوتی اثرات کے ماہر تھے، وہ سائیکل بڑی تیز چلاتے تھے۔
دبلے پتلے آدمی تھے، وہ تیزبارش میں سائیکل لے کر غائب ہوگئے، ان کے گھر میں پرانا کنستر کا ایک ٹکڑا پڑا تھا، وہ اسے لے آئے اور چھت پر انہوں نے کنستر کے ٹکڑے کو ٹیڑھا کرکے ایک اینٹ نکال کر فکس کر دیا، اس طرح پر نالہ بن گیا اور چھت کا اور بارش کا پانی کمرے میں آئے بغیر شرررر۔۔۔ کرتا باہرگرنے لگا۔ ہم نے کہا کہ بھئی یہ کیا ہوگیا ابھی بوچھاڑ اندر کو آرہی تھی، تو قدیر ملک کہنے لگا، پتہ نہیں کیا ہوگیا لیکن اب تو ٹھیک ہوگیا ہے، بیٹھ کر کام کرو۔ بڑے برسوں کے بعد جب ریٹائرمنٹ کے بعد کبھی چائے وائے پیتے ان سے کسی شخص نے اس حوالے سے پوچھا تو اس نے اصل بات بتائی۔ (اشفاق احمد کے ریڈیو پروگرام سے اقتباس)