مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد پرانے دور کی بات کرتے ہوئے اپنی یاداشتو ں میں لکھتے ہیں کہ آغا حشر کا جب طوطی بولتا تھا تو فلم والے ان کے پیچھے پیچھے بھاگے پھرتے تھے کہ آپ فلم کے لئے کچھ لکھیں لیکن وہ اپنی تھیٹر کی زندگی اور اس تصور میں اتنے مگن تھے کہ وہ فلم والوں کو گھاس نہیں ڈالتے تھے مختار بیگم بتاتی ہیں کہ انہیں کپڑے سلوانے اور پہننے کا بڑا شوق تھا ممبئی کا ایک بڑا معروف درزی تھا آغا حشر نے اپنا سوٹ سلنے کے لئے اسے دیا اور اسے کہا کہ آپ مجھے ایک تاریخ بتا دیں تاکہ میں اپنا سوٹ آکر لے جاؤں کیونکہ وقت کی کمی کے باعث میں بار بار نہیں آپاؤں گا انہیں تاریخ بتا دی گئی اور جب مقررہ تاریخ پر وہ اپنا سوٹ لینے آئے تو درزی نے کہا کہ جی میں ابھی تک سوٹ کی کٹنگ نہیں کرسکا اس پر آغاصاحب بہت ناراض ہوئے اور واپس آگئے جب آغاحشر نے ٹیلرماسٹر کی دکان پر جانا چھوڑ دیا تو دہ درزی سوٹ سی کر اور اسے پیک کرکے خدمت میں حاضر ہوگیا۔
آغا صاحب نے کہا کہ تمہارے پیسے تمہیں پہنچ جائیں گے اور ا س طرح سے مقروض اور قرض خواہ کا رشتہ شروع ہوگیا ایک ہفتے کے بعد درزی بل مانگنے آیا تو انہوں نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں آپ کا بل آپ کو مل جائیگا اب آغا صاحب کو درزی پر قیمتی وقت ضائع کرنے کا غصہ تھا اور وہ بدلہ لے رہے تھے درزی نے کوئی چار پانچ چکر لگائے مختار بیگم بتاتی ہیں کہ وہ درزی بے چارہ ایک دن رونے والا ہوگیا اور کہنے لگا کہ آغا صاحب آپ ایسا کریں کہ مجھے ایک آخری وقت یا تاریخ بتادیں میں آپ کو درمیان میں تنگ نہیں کروں گا آغا صاحب نے کہا کہ آپ ایسا کریں کہ ہر جمعرات صبح10 بجے آجایاکریں وہ بے چارہ روتا پیٹتا چلا گیا یہ واقعہ بتانے کا میرا مقصد یہ ہے کہ خالی مقروض پر ہی بوجھ نہیں ہوتا قرص خواہ بھی جال میں پھنسا ہوتا ہے‘ایک بڑا پریشان آدمی تھا وہ راتوں کو جاگتا تھا اور چیخیں مار مار کر روتا تھا وہ ایک ڈاکٹر کے پاس آیا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ اپنے ڈپریشن کی اصل وجہ بیان کریں؟ آپ کیوں اس قدر پریشان ہیں اس نے بتایا کہ میرے ذمہ ایک لاکھ روپے قرض واجب الادا ہے جو مجھے ادا کرنا ہے لیکن میں اس کی ادائیگی کر نہیں سکتا راتوں کو میں اس فکر سے جاگتا ہوں اور دن کو اس قرض کو چکانے کی تدبیریں کرتا رہتا ہوں ڈاکٹر نے کہا کہ دیکھئے آپ کے ذمے قرض ایک کاغذ کے ٹکڑے پر ہی لکھا ہوا ہے نا!
اس کو اہمیت نہ دیں‘ دفع کریں جائیں اس کاغذ کے ٹکڑے کو پھاڑ دیں وہ بندہ چلا گیا وہاں ایک اور شخص بھی بیٹھا ہوا تھا‘ اس نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب یہ جو شخص پریشان آیا تھا اور خوش خوش گیا ہے آپ نے اسے کیا کہا ہے تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں نے اسے قرض کے معاہدے والا کاغذ پھاڑنے کا مشورہ دیا ہے یہ سن کر رونے دھونے لگا اور کہنے لگا ڈاکٹر صاحب اس شخص نے مجھ سے ہی ایک لاکھ روپے قرض لے رکھا ہے۔ایک اور مقام پر اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ واقعی زندگی مصروف ہوگئی ہے‘واقعی اس کے تقاضے بڑے ہوگئے ہیں‘لیکن جب انسان‘ انسان کے ساتھ رشتے میں داخل ہوتا ہے تو سب سے بڑا تحفہ اس کا وقت ہی ہوتا ہے جس زمانے میں ہمارے استاد پطرس بخاری ہمیں گورنمنٹ کالج چھوڑ کر یواین او میں چلے گئے تھے اور وہ نیویارک ہی رہتے تھے جس علاقے یا فلیٹ میں وہ تھے۔
وہاں استاد مکرم بتاتے ہیں کہ رات کے دوبجے مجھے فون آیا اور بڑے غصے کی آواز میں ایک خاتون بول رہی تھیں وہ کہہ رہی تھیں کہ آپ کا کتا مسلسل آدھ گھنٹے سے بھونک رہا ہے اس نے ہماری زندگی عذاب میں ڈال دی ہے‘ میرے بچے اور میرا شوہر بے چین ہوکر چار پائی پر بیٹھ گئے ہیں اور اس کی آواز بند نہیں ہوتی‘اس پر بخاری صاحب نے کہا کہ میں بہت شرمندہ ہوں اور آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ میرا کتا اس طرح سے Behave کررہا ہے لیکن میں کیا کروں میں مجبور ہوں اس پر اس خاتون نے غصے میں آکر فون بند کردیا اگلے ہی روز بخاری صاحب نے رات ہی کے دوبجے ٹیلیفون کرکے اس خاتون کو جگایا اور کہا کہ محترمہ!میرے پاس کوئی کتا نہیں ہے‘ مجھے کتوں سے شدید نفرت ہے کل رات جو کتا بھونکا تھا وہ میرا نہیں تھا اب دیکھئے کہ انہوں نے کس خوبصورتی سے حال کو مستقبل سے جوڑا! یا میں یہ کہوں گا کہ ماضی کو مستقبل کیساتھ جوڑا! یہ بخاری صاحب کا ہی خاصا تھا۔