امجد اسلام امجد اپنے سفرنامے میں مخصوص اور دلچسپ انداز میں واقعات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک روز سیر سے واپسی پر لطیفے اور جعفری صاحب کے برجستہ ریمارکس پر ہنستے ہوئے ہم نے محسوس کیا کہ اقبال حیدر بہت دیر سے اپنی موٹر کا دروازہ کھولنے کی کوشش کررہے ہیں‘ معلوم ہوا کہ چابی نہیں لگ رہی۔ موٹر بالکل نئی تھی‘چابی کے سوراخ میں برف جمنے کے امکانات کا جائزہ لیا گیا‘ ڈکی کھولنے کی کوشش کی گئی مگر کسی بھی طرح تالے میں حرکت کے آثار دکھائی نہ دئیے‘ حسن ظہیر وغیرہ اس برسرعام قفل شکنی میں شامل ہوگئے مگر تالا ٹس سے مس نہ ہوا۔ اچانک میری نظر موٹر کی پچھلی سیٹ پر بھی پڑی‘ وہاں کچھ زنانہ کپڑے پڑے تھے جو یقینا اس سے پہلے وہاں نہیں تھے۔ میں نے اقبال حیدر کی توجہ اس طرف دلائی تو وہ پہلے تو ایک دم خاموش ہوگیا‘ پھر ادھر ادھر دیکھ کر زور زور سے ہنسنے لگا۔ سبب پوچھا گیا تو کہنے لگا۔ ”خدا کا شکر کریں‘ ہمیں اس کار کے مالک نے نہیں دیکھا ورنہ ہم سب مصیبت میں پڑ سکتے تھے۔“ معلوم ہوا کہ موصوف اپنی موٹر کی بجائے اسی رنگ اور ماڈل کی کسی اور موٹر پر طبع آزمائی فرما رہے تھے۔ ہمیں اس حماقت پر دیوانہ وار ہنستے دیکھ کر قریب سے گزرتی ہوئی ایک فیملی پہلے تو حیرت سے دیکھتی رہی پھر انہوں نے بھی ہنسنا شروع کردیا۔ ان کے اس طرح خواہ مخواہ ہنسنے پر مجھے منیر نیازی کا ایک واقعہ بہت یاد آیا۔ منیر نیازی جب کسی مشاعرے میں شعر پڑھنے کے لئے آتے ہیں تو چند لمحے مائیکرو فون کے سامنے خاموش بیٹھے یا کھڑے پلکیں جھپکتے رہتے ہیں۔ ان کی مقبولیت کی وجہ سے لوگ اس ادا کو بھی پسند کرتے ہیں اور ہوٹنگ نہیں کرتے مگر ایک دفعہ ایسا ہوا کہ پچھلی صفوں میں کچھ شرارتی لڑکے بیٹھے تھے‘ وہ اس وقفہئ خاموشی کو برداشت نہ کرسکے اور زور زور سے ہنسنے لگے۔ منیر نے چند لمحے ان کی ہنسی سنی پھر مائیکرو فون پر جھک کر کہا …… ”اوئے …… تم کس بات پر ہنس رہے ہو؟“ایک اور مقام پرامجد اسلام امجد اپنے مخصوص انداز میں کینیڈا کے خوبصورت مناظر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اب پتا نہیں یہ موسم کا اثر تھا یا ہوائی جہاز بھی ہماری طرح باذوق تھا کیونکہ پہلی بار فلائٹ منزل مقصود پر پندرہ منٹ کی تاخیر سے پہنچی کینیڈاکی وسعت کا اندازہ اس سے کیجئے کہ چار گھنٹے کی کل فلائٹ میں دو گھنٹے Time Differenceتھا یعنی ہماری گھڑیوں پر تین بجے تھے اور کیلگری میں پانچ بج رہے تھے ائر پورٹ پر اقبال حیدر اور حسن ظہیر کیساتھ ساتھ حد نظر تک پھیلی ہوئی برف ہماری منتظر تھی‘میں نے زندگی میں اتنی برف پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی‘کیلگری کا علاقہ تیل کی پیداوار کیلئے بے حد مشہور ہے وہاں کی معیشت کا دارومدار بھی تیل کی مصنوعات اور ریفائنریوں پر ہے‘ یہ برف میں ’کالا سونا‘ کہاں سے آ گیا؟ ایئر پورٹ سے شہر جاتے وقت بے آبادسڑک کے دونوں طرف حد نظر تک برف ہی برف تھی ہمارے میزبان حسن ظہیر‘جو خود بھی آئل کمپنی میں انجینئر تھے ہمیں اس علاقے کے بارے میں بتا رہے تھے مگر ذہن ابھی تک برف میں تیل کی پراسرار گتھی میں الجھا ہوا تھا میں نے اپنی کم علمی بلکہ لاعلمی چھپانے کیلئے خوب چکر دیکر باتوں باتوں میں حسن ظہیر سے یہی سوال کیا کہ تو اس مرد شریف نے زمین کی جیالوجیکل حالتوں کے بارے میں ایک ایسا لیکچر شروع کردیا کہ میں توخیر سائنس میں تھا ہی کورا‘عالی بھی جو عام حالات میں کسی موضوع میں بند نہیں ہوتے’ہاں ہوں‘ سے آگے نہ بڑھ سکے حسن ظہیر کو شاید اس امر کا احساس ہوگیا تھا کہ اسکی گفتگو ضرورت سے کچھ زیادہ ٹیکنیکل ہورہی ہے چنانچہ اسنے لیکچر ادھورا چھوڑ کر ہم سے ہمارے بارے میں باتیں شروع کردیں بات دوبارہ پٹرول تک پہنچ گئی‘ اب مجھ سے نہیں رہا گیا میں نے فوراً صوفی تبسم مرحوم سے متعلق ایک مشہور واقعہ داغ دیا کہ وہ تانگے میں سوار ریڈیوسٹیشن جارہے تھے واقعی لیٹ تھے یا انہیں اسکا وہم ہوگیا تھا بہر حال سنت نگر سے لکشمی چوک تک پہنچتے پہنچتے انہوں نے کوئی بیس مرتبہ تانگے والے کو تیز چلانے کیلئے کہا‘ تانگے والا بھی یکے اززندہ دلان لاہور تھاتانگے کو سیدھا ایبٹ روڈ کے چوک میں واقع پٹرول پمپ پر لے گیا پٹرول پمپ والے سے طنزاً کہااس میں دو گیلن پٹرول ڈال دو‘ اس بزرگ کو بہت جلدی ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات