شیخ سعدیؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک حاکم کے دو بیٹے تھے اور دونوں ہی فنون سپہ گری میں ماہر، شہ زور اور حوصلہ مند تھے، حاکم نے محسوس کیا کہ میرے بعد ان دونوں کی کوشش ہوگی کہ وہ حکومت پر قابض ہوں اور یوں دونوں ایک دوسرے کے قتل کے درپے ہوں گے، اس نے جب تمام پہلوؤں پر غور کرلیا تو اس نے ارادہ کیا کہ ملک کو دو حصوں میں برابر تقسیم کرکے ان دونوں کو حکومت سونپ دی جائے اور انہیں نصیحت کی جائے کہ یہ آپس میں متحد رہیں اور بوقت ضرورت ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں کہ اس میں ہی ان دونوں کی بھلائی ہے۔ حاکم کے دونوں بیٹے اپنی عادتوں میں ایک دوسرے کے مخالف تھے، ایک بیٹا خدا ترس اور خوش اخلاق تھا تو دوسرا بیٹا سخت گیر اور لالچی تھا، باپ کی زندگی میں دونوں بھائیوں کے درمیان بظاہر کوئی اختلاف پیدا نہ ہوا کیونکہ دونوں باپ کے سایہ شفقت میں تھے مگر جب باپ کی وفات ہوئی تو دونوں کا مزاج کھل کرسامنے آگیا، پہلا بیٹا جو رب ترس اور خوش اخلاق تھا اس کو اپنی عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی، ملک میں باغوں کا جال بچھ گیا اور کھیت غلے کے انبار لگانا شروع ہو گئے۔
عوام اس کی تعریف کرتے نہ تھکتے تھے اور اس کی لمبی عمر کیلئے دعائیں مانگا کرتے تھے، دوسرا بیٹا جو کہ لالچی اور سخت طبیعت کا مالک تھا اسے ہر وقت یہی فکر لاحق رہتی کہ کس طرح وہ اپنا خزانہ بھرلے، اس نے اپنی لالچی طبیعت کی وجہ سے عوام الناس کا جینا دوبھر کردیا اور لوگ اپنے گھر اور زمینیں چھوڑ کر دوسرے ممالک میں پناہ لینے لگے، جب ہمسایہ ملک کے بادشاہ کو اس ملک کی زبوں حالی کا علم ہوا تو اس نے اس پر چڑھائی کردی اور اس ملک پر قبضہ کرلیا۔ہر انسان کو اس کی محنت اور کوشش کے مطابق صلہ ملتا ہے۔سخاوت کرنے والوں کے پاس سرمایہ جمع نہیں رہتا انکی مثال بلندوبالا پہاڑوں کی سی ہے ان پر جو پانی برستا ہے وہ ڈھلانوں کی صورت میں بہہ جاتا ہے۔ ایک اور مقام پر شیخ سعدیؒ حسن سلوک کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ اگر اپنے کسی مسلمان بھائی کو قرض دو تو یہ سمجھو کہ تم اس سے حسن سلوک کر رہے ہو حسن سلوک اور احسان میں آدمی کو چاہئے کہ ظرف بڑا رکھے ٗاحسان یا سلوک کے بعد طعنہ نہ دے اسے جتلائے نہیں ورنہ خدا تعالیٰ ساری برکتیں چھین لیتا ہے ٗحکم یہ بھی ہے کہ جو مقروض ہو اسے مہلت دو۔
معذور یا مجبور آدمی پر جبر کرنا اچھا نہیں ہے۔ قرض واپس لینے میں رعایت کرنا اور مقروض کوسہولت دینا ایک خوبی ہے جسے اسلام پسند کرتا ہے ایک طرف تو یہ حکم ہے دوسری طرف قرض لینے والے احسان اٹھانے والے سے کہا گیا ہے کہ جس محبت اور خلوص سے قرض لیتے اور احسان اٹھاتے ہو اسی محبت اور خلوص سے اسے واپس کردو۔ واپس کرنے میں اگر خوش دلی نہ ہو تو یہ بات خدا کو بری معلوم ہوگی احسان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ احسان کرنے والے کو ستاؤ یا پریشان کرو اگر ایسا ہوگا تو خدا کی طرف سے اس کی سزا ملے گی۔پریشان شخص بے ہودہ لاف زنی کرتا ہے اور طنبورے کی طرح فضول بولتا رہتا ہے۔ زبان تو آگ کے شعلے کی طرح ہے پانی کے ایک چھینٹے سے بجھایا جا سکتا ہے۔ اگر تو ہنر مند ہے تو بولنے کی ضرورت نہیں تیرا ہنر خود ہی تیرا تعارف کرائے گا۔ خالص کستوری والے کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ بڑی خوشبو دار ہے۔
مغربی سونا رکھنے والے کو قسم کھانے کی ضرورت نہیں کہ خالص ہے کسوٹی خودہی بتادے گی۔ جیسے میرے (سعدی کے) بارے میں کئی لوگ کہتے ہیں کہ سعدی کم عقل اور مغرور ہے لیکن مجھے قسم اٹھا کر اپنی اہلیت ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ حاسد لوگ میری کھال تو اتار سکتے ہیں مگر میرا دماغ نہیں پاسکتے کہ میرے مقابلے میں کلام پیش کرسکیں۔یعنی بعض دفعہ زبان کھلتے ہی مصیبتوں کا دروازہ کھل جاتاہے اور چپ رہنے سے سلامتی حاصل ہوتی ہے۔ بے شک نہ کہی ہوئی بات پر کوئی بھی دلیل نہیں مانگتا ہمیشہ کچھ کہنے کے بعد ہی دلیل کا مطالبہ ہوتاہے۔ جیسے ایک عرصہ میں (سعدی) نے شعر کہنے چھوڑ دئیے تو لوگوں نے مجھ پر تنقید کرنی چھوڑ دی‘ مخلوق کے عیب ظاہر کرنے کی بجائے ان کے عیبوں سے کنارہ کش ہوجا اور اپنے عیبوں کی طرف دھیان کر۔