سیلابوں کی داستان

مشہور مصنف اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی کسی بھی علاقے کے احوال منفرد انداز میں بیان کرتے ہیں اور ان کا اسلوب اس قدر دلکش ہے کہ پڑھنے والے اپنے آپ کو اس ماحول کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ اپنے سفرنامے میں ایک مقام پر وہ لکھتے ہیں کہ دریا شہر سے لگا لگا بہہ رہا ہے مجھے خیال آیا کہ دریا میں خدا نہ کرے بڑی طغیانی آجائے تو پٹن کا کیا حشر ہوگا یہ تو سوکھے پتے کی طرح بہہ جائے گا کسی نے بتایا کہ دریا نے اسے دوچار نہیں بیسیوں مرتبہ روندا ہے لیکن بڑا سخت جان شہر ہے کہ آج بھی موجود ہے کہتے ہیں کہ 1830ء کے عشرے میں ایک بڑا سا گلیشیر ٹو ٹ کر دریائے شیوک میں گرگیا تھا اور اس نے دریا کا راستہ روک دیا تھا چنانچہ اس کے پچھواڑے بہت بڑی جھیل بنتی گئی اور بعد میں کچھ تو گلیشیر اور اس کا دل پگھلا کچھ پانی کے ذخیرے نے دباؤ ڈالا اور پھر جو پانی کا ریلا آیا تو دریائے سندھ ابل پڑا دریائے سندھ میں بدترین تباہی 1841ء میں آئی تھی کہتے ہیں کہ اس سے پہلے دریا کی وادی میں بہت ساری بستیاں تھیں اور خوب کھیتی باڑی ہوتی تھی پھر 1840ء کے جاڑوں میں ننگا پربت کے دامن کا ایک پورا پہاڑ ٹوٹ کردریا میں آرہا یہ وہ جگہ ہے جہاں استور آکر سندھ میں گرتا ہے پہاڑ گرنے سے دریا میں بڑا سا ڈیم بن گیا اور چھ مہینے کے اندر وادی میں 35 میل لمبی ایک جھیل بن گئی جس کا دوسرا سرا شہر گلگت کو چھونے لگا کچھ عرصے بعد یہ ڈیم ٹوٹا لوگوں کو معلوم تھا کہ ایک نہ ایک دن یہ ہونا ہے چنانچہ وہ پہلے ہی اپنے ڈیرے اٹھا کر اونچے مقامات پر چلے گئے لہٰذا جانی نقصان تو بہت کم ہوا لیکن زمین تباہ ہوگئی 1885ء میں بھی دریائے گلگت یا شاید ہنزہ میں ایسا ڈیم بن گیا تھا وہ جب ٹوٹا توتین سو میل نیچے تک دریا صرف ایک دن میں نوے فٹ اونچا ہوگیا تھا وقت گزرنے کے ساتھ یہ خطرے ختم نہیں ہوئے ہیں۔میں بشام سے چلنے لگا تو کسی نے کہا کہ مجتبیٰ صاحب سے 
ملے بغیر نہ جائیے گا۔ بشام کے بہت سے زمانے دیکھے ہیں اوربہت دنیا بھی دیکھی ہے انہوں نے۔ یہ سنا تو میں نے بھی مجتبیٰ صاحب کو دیکھنے کی ٹھانی اور انہیں ڈھونڈنا بھی بہت آسان نکلا۔ انکے گھر کی دہلیز عین شاہراہ ریشم پر ہے۔ جس سڑک نے یہ پورا علاقہ کھول دیا۔ ان کے مکان کا دروازہ اسی سڑک پر کھلتا ہے۔ محمد مجتبیٰ صاحب بہت خلیق‘ ملنسار اور پڑھے لکھے نکلے۔ اوپر سے مہم جو ایسے کہ دینی تعلیم پانے کیلئے ان پہاڑوں سے اترے اور دلی جا پہنچے اور پھر روزگار کی تلاش میں برما چلے گئے وہیں شادی کی اورسارے بچے وہیں پیدا ہوئے‘ آخر جی نہ مانا اور تقریباً چالیس برس کی عمر میں بال بچوں سمیت یہیں پہاڑوں میں لوٹ آئے۔ میں نے محمد مجتبیٰ صاحب سے پوچھا کہ آپ جب پیدا ہوئے‘ ان دنوں یہاں بشام میں پیدائش کا کوئی رجسٹر ہوتا تھا؟ کچھ یاد ہے آپ کو‘ آپ کب پیدا ہوئے تھے؟ ذہن پر زورڈالے بغیر فوراً بولے ”1924ء میں“ اور یہیں اسی بشام میں“ اسی بشام میں‘ آپ نے بزرگ یہاں کیا کرتے تھے؟ یہ کوئی ایسا زمیندارہ کا کام کرتے تھے۔ کھیتی مویشی کا‘ ایسا ہی کام کرتے تھے‘ ہر شخص اس کی رائے سے کام کرتا تھا۔ جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے وہ بڑے اخلاق والے تھے اور مہمان نوازتھے۔ آپس میں کچھ بھی ہو لیکن باہر سے کوئی آدمی آتا تھا تو اس کی بڑی خاطر اور عزت کی جاتی تھی۔ میں نے کہا چلیے یہ لوگ آپس میں لڑتے تھے مگر کیا یہ صحیح ہے کہ انگریزوں کو انہوں نے اس علاقے میں قدم نہیں رکھنے دئیے اور سفید فام حکمرانوں کو اس طرف آنے کی اجازت نہیں تھی؟ وہ بولے جب انگریزوں کی بادشاہی تھی‘ اس وقت انگریز اس علاقے میں نہیں آتا تھا‘ انگریز کا نام سن کر اس علاقے والے متفق ہو جاتے تھے۔ آپ لوگ جو دریا کے کنارے بستے ہیں‘ جان ومال سے ہوشیار رہیں۔ ایک مرتبہ تو دریا میں اتنا شدید سیلاب آیا کہ یہ جگہ جہاں آپ بیٹھے ہیں‘یہاں بھی پانی تھا۔ گفتگوختم ہوئی‘ ہم بغلگیر ہوئے۔ باہر سڑک پر بڑے بڑے ٹرک چین کی طرف چلے جا رہے تھے اور نشیب میں دریائے سندھ آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا۔ اس میں کچھ ایسا سکوت اور ایسا سکون تھا جیسے وہ اپنی گردن پر کوئی الزام لینے کو تیار نہ ہو۔