نامور ڈرامہ نگار اور مصنف اشفاق احمد اپنے چلاس جانے کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہم شاہراہ ریشم پر چل رہے تھے اور ہمیں شام پانچ چھ بجے کے قریب چلاس پہنچنا تھا‘چلاس پہاڑی علاقہ ہے اور کافی اونچائی پر ہے‘ہمارے لیڈرنے وہاں ایک سکول ماسٹر کے گھر پر ہمارے ٹھہرنے کاانتظام کیاتھا‘جب ہم وہاں پہنچے تو شام پانچ کی بجائے ہمیں رات کے دس بج گئے‘اس دیر کی بابت ہم سب نے فیصلہ کیا کہ اتنی رات کو کسی کے گھر جانا برا لگتا ہے چنانچہ ایک صاف سے پہاڑ پر ہم اپنے بستر کھول کر بیٹھ گئے‘بڑی مزیدارہوا چل رہی ہم وہاں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک بہت خوفناک طوفان چلنے لگا‘ اس تیز ہوا کے سبب ریت بھی اڑنے لگی اس تیز طوفان کیساتھ ہی تیز بارش بھی ہونے لگی اور اولے بھی پڑنے لگے‘اس موقع پر ہمارے لیڈر عمر بقری مرحوم نے کہا کہ ماسٹر صاحب کے گھر چلنا چاہئے ہم نے اس اندھیرے آخرکار گھر تلاش کر ہی لیا جب وہاں پہنچے تو ماسٹر صاحب پریشان کھڑے تھے‘انہوں نے بتایا کہ وہ کسی کے سوئم پر گئے تھے لیکن اپنی بیوی کو اشارہ دے کر گئے تھے کہ میرے دوست آئیں گے‘اچھا ہوا کہ آپ کے پہنچنے سے پہلے ہی میں پہنچ گیا۔میری چھوٹی پوتی نے گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک عجیب و غریب بات کی جو میں تو نہیں کرسکا‘ اس نے سکول کی تھرماس لے کے اس میں شکنجبین بنائی بہت اچھی ٹھنڈی اور برف ڈالی اور اس کو جہاں ہمارالیٹر بکس لگا ہے درخت کے ساتھ ہے اس درخت کی کھوہ میں رکھ دیا اور ایک خط لکھ کے پن کر دیا اس کے ساتھ اس نے لکھا انکل پوسٹ مین آپ گرمی میں خط دینے آتے ہیں تو آپ بائیسکل چلاتے ہو بڑی تکلیف ہوتی ہے میں نے آپ کیلئے یہ شکنجبین بنائی ہے یہ آپ پی لیں‘ میں آپ کی بڑی شکر گزار ہونگی ہاں جی تو دوپہر کو ہم روز زبردستی سلا دیتے تھے بچوں کو‘شام کو جب جاگی تو وہ لے آئی تھرماس دیکھا تو وہ خط تھا اس کا
اس کے اوپر ہر کارے نے جو خاص کان میں رکھتے ہیں بال پوائنٹ ان کا خاص انداز ہوتا ہے تو اس نے لکھا تھا پیاری بیٹی تیرا بہت شکریہ میں نے شکنجبین کے دو گلاس پیئے اور اب میری رفتار اتنی تیز ہوگئی ہے کہ میں ایک پیڈل مارتا ہوں تو دوکوٹھیاں آسانی سے گزر جاتا ہوں تو جیتی رہ‘ اللہ تجھے خوش رکھے‘ کل جوبنائے گی اس میں چینی کے دو چمچ زیادہ ڈال دینا یہ اس کی محبت ہے نا یہ بچی جو ہے چھوٹی سی‘خواتین و حضرات اس نے ایک تعلق محسوس کیا اس سے اسی طرح سے میں کہا کرتا ہوں کہ ہماری زندگیوں میں ہمارے اس جلتے ہوئے ماحول میں تکلیفوں بھرے ماحول میں آپ نے اکثردیکھا ہوگا کہ ہمارا ایک محکمہ ایسا ہے جو خیربانٹتا ہے اور میں اس سے بہت خوش ہوں وہ ڈاک کا محکمہ ہے یعنی آپ بڑی آسانی کے ساتھ اپنی چیز لے جائیں اور ٹھپا لگا کر آپ کو رسید دیتا ہے میں دعا کرتا ہوں آپ یقین کریں میں سچی بات عرض کرتا ہوں کہ میں جب بھی کسی ڈاک خانے کے پاس سے گزرتا ہوں چاہے میں گاڑی میں جارہا ہوں میں انہیں سلام ضرور کرتا ہوں کہ میں آپ کی اور کوئی خدمت نہیں کر سکا اب آپ کہنے والے ہونگے جناب یہ منی آرڈر چوری کرلیا تھا انہوں نے اخبار میں آتی ہیں ایسی چیزیں‘میں مجموعی طور پر بات کررہا ہوں وہ بڑی خوبی کے مالک ہوتے ہیں اور وہ آپ کو آسانیاں عطا کرتے ہیں آپ اپنا پارسل لے کر جائیں اور وہ بابو جو بیٹھا ہوا کہے جناب اس پر پیلا کاغذ لگا کر لائیں یہ نیلا نہیں قابل قبول‘ آپ کچھ نہیں کرسکتے دوسرا یہ کہ ڈوری اس پر سرخ باندھیں‘کچھ بھی اعتراض کرسکتا ہے یعنی آپ دیکھئے ایک چیز جو میرا استحقاق ہے اور جس پر کوئی بھی اس کے اوپر حق نہیں رکھتے اتنی وہ چیز میری ہے کہ اس دنیا میں اس کرہ ارض پر اور کسی کی نہیں اور اس میں شامل ہی نہیں اور وہ میرا نام اور میری تاریخ پیدائش ہے اگر مجھ کو وہ خدانخواستہ تاریخ پیدائش دفتر سے لینی پڑ جائے کئی دفعہ تاریخ پیدائش نکلوانی پڑتی ہے اعتراض لگا دیتے ہیں اس کے ساتھ اپنا شناختی لگائیں‘ ا س کی دو کاپیاں کرکے لائیں‘ڈاک خانے والے ایسا نہیں کرتے اسلئے میں اس کیلئے دعا کرتا ہوں۔ (اشفاق احمد کے نشرپروگرام سے اقتباس)۔