پرُ لطف باتیں 

میں نے کتنے لوگوں کو انٹرویو کیا‘ شمار کرنا مشکل ہے‘ ان کے نام گنوانا اور بھی دشوار ہے۔ بعض لوگوں کی گفتگو اوربات چیت کا انداز آج تک یاد ہے لیکن اکثر کو بھول گیا ہوں‘ ڈائری رکھی ہوتی تو یوں نہ ہوتا۔ لیکن یہ کہہ سکتا ہوں سب سے دلچسپ گفتگو کون کرتاہے۔ وہ تھے اپنے وقت کے مشہور قوال غلام فرید صابری اس قدر پر لطف باتیں کرتے تھے کہ سارا وقت ہنستے ہنستے گزر جاتا تھا سب سے مشکل ثابت ہونے والوں میں محمد رفیع مرحوم کا ذکر تو ہو چکا‘ ان کے علاوہ ایک اور بڑے گلوکار مہدی حسن نے بھی ستایا‘ ان کی عجیب خصوصیت یہ تھی کہ چائے کی پیالی پر نہایت عمدہ گفتگو کرتے تھے لیکن مائیکروفون کے سامنے انہیں چپ لگ جاتی تھی۔ مہدی حسن لندن آئے ہوئے تھے میں نے سوچا کہ ان کی ایک طویل گفتگو ریکارڈ کرکے محفوظ کر لی جائے اس کیلئے بڑی تیاری کی گئی ان کے نمائندہ گانے نکالے گئے اور طے یہ پایا کہ ہر گانا بجا کر اس کے بارے میں ان سے بات کی جائے گی‘انٹرویو سے پہلے ان سے گفتگو ہوئی اور فیصلہ ہو گیا کہ ان سے کیا کیا پوچھا جائے گا لیکن جب ریکارڈنگ شروع ہوئی تو بالکل یوں لگا کہ جوباتیں وہ بی بی سی کی کینٹین میں کہہ چکے تھے۔

 انہیں دہرانے سے گریز کر رہے تھے ایسا بہت سے لوگوں کے ساتھ ہوا اور سمجھتے تھے کہ جو گفتگو وہ پہلے کر چکے ہیں‘ اسے دہرانا معیوب لگے گا۔موسیقی کی دنیا سے تعلق رکھنے والے جن لوگوں نے جی کو خوش کرنے والی باتیں کیں ان میں موسیقار اعظم نوشاد علی سرفہرست ہیں نہایت روانی سے بولتے تھے۔ لب و لہجہ انتہائی مہذب تھا اور لاکھ بمبئی میں رہے ہوں‘ لکھنو ان کے اندر جوں کا توں موجود تھا۔ مصلحتوں اور نزاکتوں کا بہت خیال رکھتے تھے‘لتا منگیشکر نے محمدرفیق کیخلاف کیسا محاذ کھڑا کیا تھا‘ صاف ٹال گئے‘طلعت محمود سے خود نوشاد صاحب کا اختلاف کس بات پر تھا‘ جواب دیتے ہوئے پہلو بچا کر نکل گئے‘البتہ فلم کی دنیا میں کس کس کو اور کیسے لائے اس کی تفصیل مزے لے لے کر سناتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ میری باتوں سے یہ نہ سمجھئے گا کہ ان سب کو میں نے متعارف کرایا بعض گانے والوں کیلئے ان کا یہ جملہ ایک سے زیادہ بارسننے میں آیا کہ انہوں نے میرے لئے گایا‘ ان کی شہرت تو پہلے ہی بہت تھی‘ میری عزت بڑھ گئی۔انیسویں صدی کی بھولی بسری کتابوں کو پرانے ذخیروں سے نکالنے اور ریڈیو پر پڑھ کر سنانے کا سلسلہ اپنے خاتمے کو پہنچا تو طے پایا کہ اس کی جگہ ایک نیا اور رنگارنگ پروگرام پیش کیا جائے۔

بی بی سی میں اکثرپروگراموں کے دو نام ہوا کرتے تھے ایک انگریزی اور دوسرا اردو میں‘ اس نئے پروگرام کا انگریزی نام”سنڈے میگزین“ قرار پایا‘ اردو میں اس کا نام ”اتوار کے اتوار“ رکھاگیا۔اس پروگرام کامرکزی خیال یہ تھا کہ اس میں دنیا زمانے کی دلچسپ باتیں کی جائیں‘ طرح طرح کے موضوعات چھیڑے جائیں‘ زندگی کے ہر شعبے کے لوگوں کو بلا کر ان سے گفتگو کی جائے اور چلتے چلتے کوئی بھولا بسرا نغمہ سنوا دیا جائے۔ میرے پاس پرانے گانوں کا بڑا ذخیرہ تھا اور میں جانتا تھا کہ یہ نغمے ایک خاص نسل کے سننے والوں کو لبھاتے ہیں مجھے یہ بھی پتہ تھا کہ دلی سٹیشن کے اردو پروگرام میں صبح صبح پرانے نغمے نشر کئے جاتے تھے اور کراچی کے ہرگھر سے ان ہی گانوں کی آوازگونجا کرتی تھی۔ میرا ٹھکانہ کراچی ہی تھا۔”اتوار کے اتوار“ نام کے پہلے پروگرام کیلئے مجھے دو ایک چونکانے والے موضوعات کی تلاش تھی یہ وہ دن تھے جب اردو کے ممتاز طنز نگار اور شاعر ابن انشاء اپنے علاج کیلئے لندن آئے ہوئے تھے وہ ”کتب خانہ“ کے آخری پروگرام میں شریک بھی ہوئے اگلے ہی ہفتے ”اتوار کے اتوار“ شروع ہونے والا تھا۔ ان سے طے پایا کہ جیسے انہوں نے برسہا برس اخباروں کیلئے کالم لکھے تھے‘ اب ریڈیو کیلئے ہفتہ وار کالم لکھیں۔ خیال نیا اور اچھوتا تھا‘وہ آمادہ ہوگئے‘ابن انشاء نے اپنی زندگی کا پہلا ریڈیائی کالم لکھا۔کسے پتہ تھا کہ یہی ان کی زندگی کا آخری کالم ہو گا۔ان کا مرض بڑھتا گیا اور وہ دیکھتے دیکھتے چل بسے۔ کیسی روشنی تھی ان سے کیسااندھیرابھر گیا فضا میں۔
(رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے اقتباس)