یہ ہنڈ ہے‘ پاکستان کا بہت چھوٹا سا گاؤں لیکن تاریخ کا بہت بڑا شہر! دھوپ چمک رہی ہے‘ مشہور مصنف اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی مزید لکھتے ہیں کہ ذرا نیچے دریائے سندھ خاموشی سے بہہ رہا ہے اور بہت پرانے درخت کے سائے میں کنوئیں پر رہٹ چل رہا ہے اور بیل کے گھنگھروؤں کی آواز گونج رہی ہے اس گاؤں کے دروازوں‘ قلعے کے کھنڈروں کی دیواروں‘ محمود کے سپاہیوں کی قبروں‘ دریا کی لہروں اور سندھ کے ان کناروں نے پچھلے ہزاروں برسوں میں ایسی نہ جانے کتنی آوازیں سنی ہوں گی کبھی آریاؤں کے قافلوں کے قدموں کی چاپ‘کبھی اشوک کے جلوس شاہانہ کے باجے‘ کبھی سکندر اعظم کے رتھوں کی گڑگڑاہٹ‘ کبھی حاکم غزنی کی فوجوں کے نقارے اور طبل‘ چھوٹے سے گاؤں ہنڈکی چھاتی کو خدا جانے کس کس نے روندا اور پامال کیا ہوگا۔میں جن دنوں ہنڈگیا، ماہ رمضان کے آخری دن تھے۔ دریا کے ادھر اٹک میں روزہ تھا‘ دریا پار کرتے ہی جہانگیرہ میں عید تھی اور دریائے کابل کے پارتر بیلا کی جانب روزہ تھا۔ میری کار بڑی سڑک سے اتر کر دریائے سندھ کی طرف مڑی اور کھیتوں کے درمیان ایک چھوٹی سی سڑک پر دوڑنے لگی۔ کچھ دور جا کر نہریں نظر آئیں‘ سرسبز کھیت نظر آئے۔ ان کے درمیان ایک بینک نظر آیا۔ دریا کے اونچے کناروں پر پتھروں اور اینٹوں کے بنے ہوئے پرانے مکان تھے‘ کچی گلیاں تھیں جن میں لگے بجلی کے کھمبے تھے۔ کہیں کہیں چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں بے حد پرانے قلعوں اور عمارتوں کے کھنڈر تھے اور بس! آج کی دنیا نہیں جانتی کہ کبھی عظیم الشان مملکت گندھارا کا یہ شاندار پایہ تخت تھا اور یہ ہند میں داخل ہونے کا راستہ تھا اسکے پرانے نام اور اس کی تاریخ کے بارے میں برصغیر کے نامور تاریخ دان ڈاکٹر احمد حسن دانی نے بہت دلچسپ باتیں بتائی تھیں۔ ’یہ ہنڈ‘ جس کا پرانا نام اُدبھانڈ پورتھا‘ اودے کے معنی ہوتے ہیں پانی کے اور بھانڈ کے معنی ہوتے ہیں برتن کے یعنی وہاں پر برتنوں کو باندھ کے کشتی بناتے تھے اور اس سے وہ دریا پار کرتے تھے اس لئے وہ شہر جہاں سے کہ انڈس کو پار کیا جاتا ہے اس کشتی پر جسے ہم برتنوں کو اکٹھا کرکے بناتے ہیں اس لئے اس کا نام اُدبھانڈپور ہوا اور یہ قدیم ترین جگہ ہے جہاں سے انڈس کو پار کیا جاتا تھا سکندر‘ بابر‘ چنگیز خان ان سب کی گزرگاہ یہی تھی وہاں پر آپ نے ایک قلعہ دیکھا ہوگا وہ مغلوں کا قلعہ ہے اس سے پہلے کا ہندوشاہی کا قلعہ بھی وہاں موجود ہے۔ یہ تھے ڈاکٹر احمد حسن دانی‘ اور یہ ہیں ہنڈ کے باشندے جو مجھے گاؤں کی گلیوں میں ملے اور ذرا دیر میں دوست بن گئے اور پھر دیر تک گلے ملے ان ہی میں فضل الرحمان صاحب تھے۔ دریا کے کنارے پیدا ہوئے اور سمندری فوج میں ملازم رہے۔ مجھے اپنی سرزمین کے بارے میں بتا رہے تھے۔ ایک اور جگہ رضا علی عابدی لکھتے ہیں کہ‘ٹرین فراٹے بھرتی ہوئی لیہ کی طرف چلی‘ یوں لگا کہ پنجاب کی سرزمین میں مانگ نکالتی جا رہی ہو‘راستے میں جگہ جگہ گاؤں آنے لگے‘ صاف ستھرے گاؤں۔ ان کی لپی پتی روشن دیواریں‘ان میں بسنے والے بھی ویسے یہ جن پر صبح کی پہلی دھوپ کا نکھار تھا‘ بچے سڑک کے کنارے کھڑے تھے اور سکول جانے کیلئے شاید بس کا انتظار کر رہے تھے لڑکیاں بھی نیلی قمیض اور صاف سفید شلوار پہنے‘لال دوپٹے اوڑھے سکول جا رہی ہیں یہ سب پڑھ لکھ جائیں گے تو کتنا اچھا ہوگا۔ذرا آگے چلے تو راستے میں باغات آگئے جن کے درختوں کی شاخیں پھلوں کے بوجھ سے جھکی جھکی جا رہی تھیں‘کوئلے کی بھٹیاں سلگ رہی تھیں جن سے ہلکی رنگت کا دھواں اُٹھ رہا تھا‘ قریب ہی لکڑی کے ڈھیر تھے جنہیں جلا کر کوئلہ بنایا جا رہا تھا کچھ دیر بعد اس گاڑی کے ٹکٹ چیکر صاحب آگئے ٗوہ بھی اپنے دکھ دیر تک بتاتے رہے ٗ ان کا بیٹا بڑا ہوگیا ہے پہلے ریلوے کے ملازموں کے بیٹوں کو ریلوے میں ملازمت مل جایا کرتی تھی مگر اب ملازم زیادہ ہیں ان کے بیٹے بھی بہت ہیں اسلئے نوکری کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔اس دوران ہماری گاڑی لیہ سے آگے نکل گئی یہاں اونچی اونچی گھاس لگی تھی دور دور تک کھیت تھے ریلوے لائن کیساتھ ساتھ ایک سڑک تھی جس کی دوسری جانب دریا تھا۔