معروف براڈ کاسٹرآغا ناصراسلام آبادمیں ادبی تنظیم کے قیام اور پھر اسکے اجلاسوں کی کاروائی سے متعلق یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ اداجعفری اور نور الحسن جعفری سے میرا تعارف عالی بھائی نے کرایا تھا‘شاید میں اور صفیہ ان دونوں کو پسند آ گئے‘آناً فاناً ہمارے تعلقات اس قدربڑھ گئے کہ جیسے ہم ایک دوسرے کوبرسوں سے جانتے ہیں اداجعفری بلاشبہ اردو کی سب سے بڑی خاتون شاعر تھیں اور نور بھائی حکومت پاکستان کے مالیات کے محکمہ میں ایک بڑے افسر تھے‘ ہماری بے تکلفی اتنی بڑھ گئی کہ ایک روز اداباجی نے بتایا کہ وہ اسلام آباد کے خشک اوربے جان شہر میں کچھ رنگ پیدا کرنے کیلئے شعر و ادب کی محفلوں کا اہتمام کرنے کی کچھ تجاویز پر غور کر رہی ہیں ان کا خیال تھا اس شہر میں جو سرکاری ملازمین کا شہر ہے جہاں بازاروں میں رونق اور سڑکوں پر ٹریفک کم ہے اور لوگوں کے پاس خالی وقت زیادہ ہے‘کچھ کیا جائے۔وہ دونوں اس سے پہلے جمیل نشتر سے بھی جو ان کے بہت اچھے دوست تھے‘ اس سلسلہ میں مشورہ کر چکے تھے۔ ان کی بات میرے دل کوبھائی اور میں نے فیصلہ کیا کہ اس منصوبہ کو کامیاب بنانے کیلئے جو کچھ میں کر سکتا تھا ضرور کروں گا۔ چند دنوں بعد ایک شام ادا باجی کافون آیا کہ خیال”کو عملی جامع پہنایا جائے لہٰذا ایک میٹنگ میں تفصیلات طے کر لی جائیں۔میں اس زمانے میں چکلالہ کے ٹیلی ویژن کا جنرل منیجر تھا اور بے حد مصروفیت کے دن گزار رہا تھا۔ ادا باجی کی بات مجھے تازہ ہوا کہ ایک جھونکا محسوس ہوئی اور اگلی شام میں اورصفیہ اس میٹنگ میں شرکت کے لئے پہنچ گئے جو انہوں نے بلائی تھی۔ادا باجی کو سلیقہ شعاری اور انتظامی معاملات میں کمال حاصل تھا۔ انہوں نے ایک جامع منصوبہ تیار کیا ہوا تھا اوراس کو Consider کرنے کیلئے یہ میٹنگ بلائی گئی تھی۔ متفقہ طور پر سب طے کرلیا گیا‘اس انجمن کا نام”سلسلہ“ تجویز ہوا ”خاصان سلسلہ“ کے نام جن کا انتخاب متفقہ طور پر کیا گیا تھا اسکے منشورمیں درج ساری شرائط
پوری کریں گے۔ سلسلہ کی رکنیت محدود رہے گی اور کوئی بھی نیا نام بنیادی اراکین کی رضامندی کے بغیر شامل نہیں کیا جا سکے گامختار مسعود کو ”سلسلہ“ کا پہلا صدر اور نثار عزیز کو سیکرٹری مقررکیاگیا۔ کچھ عرصہ بعد جب مختار مسعود آرسی ڈی میں تعینات ہو کر تہران چلے گئے تو قدرت اللہ شہاب کوان کی جگہ صدر بنالیاگیا‘ خاصان سلسلہ کے سارے نام لکھ کر محفوظ کرلئے گئے۔ منشور کے مطابق سلسلہ کی میٹنگ مہینے میں ایک بار ہونا قرار پائی‘ جس میں ایک نثر اور ایک نظم کاآئٹم پڑھنا ہوگااداباجی نے نظم ونثر کے علاوہ ایک شق یہ بھی رکھی تھی کہ ہر بار محفل میں غیبت‘ کیلئے پندرہ منٹ کا وقت ہو گا چونکہ اس کی رکنیت محدود تھی اسلئے شہرمیں ایک افواہ یہ بھی گرم ہو گئی کہ یہ بڑے افسروں کی ایک ’خفیہ تنظیم‘ہے بعد میں ”سلسلہ“کے اراکین میں اورلوگ بھی شامل ہو گئے‘ ان میں ممتاز مفتی‘ جنرل شفیق الرحمن‘ ضیاء جالندھری‘ مسعود مفتی‘مختار زمن وغیرہ شامل تھے۔ منشور کے قواعد میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ رکن ہونے کیلئے شوہر اور بیوی میں سے ایک شاعر یاادیب ہو‘ جمیل نشتر کو اس سے مستثنیٰ قرار دیاگیا تھا چونکہ ان دونوں میاں بیوی میں کوئی بھی شاعر یاادیب نہیں تھا۔ یہ طے ہواکہ جمیل نشتر اس کمی کواس طرح پورا کریں گے کہ ہر محفل میں کسی بھی شاعر کی نظم یانثر سے اپنی پسند کا کوئی اقتباس پڑھ کر سنایا کریں گے۔’سلسلہ“ بڑے اہتمام سے شروع کیا گیا نشست گاہ میں چاندنی کے فرش پر موم بتیوں کے سانولے اجالے بکھرے ہوئے تھے آتشدان پر رکھے ہوئے فانوس سے چھنتی ہوئی روشنی نے دیوار پر آویزاں صادقین کے خطوط کو گویا تاب گویائی بخش دی تھی ”خاصان سلسلہ“ نیم دائرے کی صورت فرش پر بیٹھے تھے سامنے ترکستانی قہوہ دان اور فنجان سنبھالے ہوئے دوطشت تھے یہاں میزبان اور مہمان کی تمیز ناروا تھی اس لئے ہر عزیز کو اپنا پیالہ خود بھرنا تھا آگے ایک بادیے میں کھجوریں تھیں اور پس منظر میں عاشق رسول کی غیر فانی نظم کے مصرعے دہراتی ہوئی دھیمی آواز‘یہ سلسلہ مدتوں بہت خوبی کیساتھ چلتا رہا‘اسلام آباد میں کام کرنے والی بہت سی ایسی تنظیموں اور انجمنوں کا میں رکن بنا جو اس طرح کی مصروفیات کیلئے مشہور ہیں۔