امجد اسلام امجد اپنے سفرنامے میں منفرد انداز سے ڈزنی لینڈ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگلا دن ڈزنی لینڈ کے نام تھا‘ عالی نے بتایا کہ میامی کے قریب اس کا ایک ماڈرن روپ بنایا گیا ہے جو سائنسی عجوبوں کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہے مگر اصلی ڈرنی لینڈ کا اب بھی کوئی جواب نہیں‘ ہر عمر کے ”بچوں“ کی تفریح کیلئے اس سے بہتر جگہ دنیا میں اور کہیں نہیں‘ ایک تو میرا جغرافیہ ویسے ہی کمزور ہے اس پر امریکہ کے شہر کے فاصلے اور پھر شہروں کے اندر کے فاصلے ایسے ہیں کہ ابن بطوطہ کو بھی پریشان کردیں‘ سو حرام ہے جو مجھے پتا چلا ہو کہ ہم کدھر سے گزر کر کہاں جارہے ہیں اور یہ کہ کل اسی طرح کے پل اور سڑک پر سے گزر کر پوائنٹ A آیا تھا تو آج اس کے بالکل مخالف سمت واقع پوائنٹ B کیسے آگیا ہے! چنانچہ میرے اندازے کے حساب سے ڈزنی لینڈ بالکل اسی طرح آیا جیسے کولمبس نے ہندوستان کا راستہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے امریکہ دریافت کرلیا تھا اور شاید اسی لئے یہاں کے لوکلز کوریڈ انڈین کہتے ہیں؟
طے یہ پایا کہ مشہور مزاح نگار مرحوم سید محمد جعفری کے صاحبزادے احمد جعفری شام چھ بجے ہمیں ڈزنی لینڈ کے مرکزی گیٹ سے وصول پالیں گے چنانچہ اس وقت تک کیلئے ہم ہیں اور ڈزنی لینڈ کی حیرانیاں‘ گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ پر ایک ریلوے سٹیشن بنایا گیا ہے یہاں سے ایک ٹرین ہر بیس منٹ کے بعد آپ کو پورے ڈزنی لینڈ کا چکر لگوانے کیلئے روانہ ہوتی ہے‘ اپنے اس سفر کے دوران یہ ٹرین آپ کو دنیا کے مختلف علاقوں کے فطری مناظر دکھاتی ہوئی چارسٹیشنوں پر رکتی ہے جو دراصل ڈزنی لینڈ کے چار مختلف حصے ہیں اور ہر حصہ اپنے نام کی مطابقت سے آپ کو ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے‘ ہم نے بھی سب سے پہلے ٹرین سے ڈزنی لینڈ کا ایک چکر لگایا اور یہ سوچ سوچ کر حیران ہوتے رہے کہ اس جگہ کو صحیح طرح سے دیکھنے کیلئے تو کم از کم ایک ہفتہ درکار ہے‘ چند گھنٹوں میں تو ہم اس کی بس کچھ جھلکیاں ہی دیکھ پائیں گے۔
ایک اور مقام پر امجد اسلام امجد اپنے مخصوص انداز میں کینیڈا کے خوبصورت مناظر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اب پتا نہیں یہ موسم کا اثر تھا یا ہوائی جہاز بھی ہماری طرح باذوق تھا کیونکہ پہلی بار فلائٹ منزل مقصود پر پندرہ منٹ کی تاخیر سے پہنچی کینیڈاکی وسعت کا اندازہ اس سے کیجئے کہ چار گھنٹے کی کل فلائٹ میں دو گھنٹے Time Differenceتھا یعنی ہماری گھڑیوں پر تین بجے تھے اور کیلگری میں پانچ بج رہے تھے ائر پورٹ پر اقبال حیدر اور حسن ظہیر کیساتھ ساتھ حد نظر تک پھیلی ہوئی برف ہماری منتظر تھی‘میں نے زندگی میں اتنی برف پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی‘کیلگری کا علاقہ تیل کی پیداوار کیلئے بے حد مشہور ہے وہاں کی معیشت کا دارومدار بھی تیل کی مصنوعات اور ریفائنریوں پر ہے‘ یہ برف میں ’کالا سونا‘ کہاں سے آ گیا؟
ایئر پورٹ سے شہر جاتے وقت بے آبادسڑک کے دونوں طرف حد نظر تک برف ہی برف تھی ہمارے میزبان حسن ظہیر‘جو خود بھی آئل کمپنی میں انجینئر تھے ہمیں اس علاقے کے بارے میں بتا رہے تھے مگر ذہن ابھی تک برف میں تیل کی پراسرار گتھی میں الجھا ہوا تھا میں نے اپنی کم علمی بلکہ لاعلمی چھپانے کیلئے خوب چکر دیکر باتوں باتوں میں حسن ظہیر سے یہی سوال کیا کہ تو اس مرد شریف نے زمین کی جیالوجیکل حالتوں کے بارے میں ایک ایسا لیکچر شروع کردیا کہ میں توخیر سائنس میں تھا ہی کورا‘عالی بھی جو عام حالات میں کسی موضوع میں بند نہیں ہوتے’ہاں ہوں‘ سے آگے نہ بڑھ سکے۔
حسن ظہیر کو شاید اس امر کا احساس ہوگیا تھا کہ اسکی گفتگو ضرورت سے کچھ زیادہ ٹیکنیکل ہورہی ہے چنانچہ اسنے لیکچر ادھورا چھوڑ کر ہم سے ہمارے بارے میں باتیں شروع کردیں بات دوبارہ پٹرول تک پہنچ گئی‘ اب مجھ سے نہیں رہا گیا میں نے فوراً صوفی تبسم مرحوم سے متعلق ایک مشہور واقعہ داغ دیا کہ وہ تانگے میں سوار ریڈیوسٹیشن جارہے تھے واقعی لیٹ تھے یا انہیں اسکا وہم ہوگیا تھا بہر حال سنت نگر سے لکشمی چوک تک پہنچتے پہنچتے انہوں نے کوئی بیس مرتبہ تانگے والے کو تیز چلانے کیلئے کہا‘ تانگے والا بھی یکے اززندہ دلان لاہور تھاتانگے کو سیدھا ایبٹ روڈ کے چوک میں واقع پٹرول پمپ پر لے گیا پٹرول پمپ والے سے طنزاً کہااس میں دو گیلن پٹرول ڈال دو‘ اس بزرگ کو بہت جلدی ہے۔