پاکستان میں چندماہ پہلے اتنی گرمی پڑی کہ زمین آگ اگل رہی تھی ان دنوں آسمان سے بارش کی ایک بوندبھی نہ ٹپکی پھر مون سون کے موسم میں دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر میں بارش کے طوفان اور سیلابی پانی کے ریلے پلوں اور سڑکوں کو بہا کر لے گئے لاکھوں گھر اور عمارتیں اپنی بنیادوں سے اکھڑ کر خس و خاشاک کی طرح بہہ گئیں دیہاتی علاقوں میں غضبناک پانی کی موجیں انسانی آبادیوں کو پلک جھپکتے میں بہا لے گئیں یہ سیلاب اب تک بارہ سو افرا د کو ہلاک کر چکا ہے تیس لاکھ گھروں کو بہا کر لے گیا ہے ساڑھے تین کروڑافراد بے گھر ہو چکے ہیں لاکھوں کی تعداد میں لوگ کھلے آسمان تلے کئی روز سے بھوکے پیاسے پڑے ہیں دو مہینوں کی مسلسل بارشوں کے بعد زرعی زمینوں کا ایک بڑا حصہ زیر آب آ چکا ہے اس وجہ سے اب پاکستان کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑے گااس کے ساتھ وبائی امراض کے پھیلنے کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے۔سندھ‘ بلوچستان‘ پختونخوا اور جنوبی پنجاب میں لوگ کشتیوں اور اونٹوں کی مدد سے محفوظ مقامات تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ ہلاکت خیزی کئی اعتبار سے بارہ برس پہلے آنے والے سیلاب سے کہیں زیادہ خطرناک ہے اس ہوشربا تباہی نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں آ نے والے ممالک میں سر فہرست ہے‘مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق ماحولیاتی سائنسدانوں نے پاکستان کی اس تشویشناک صورتحال کو گلوبل وارمنگ کا نتیجہ قرار دیا ہے انکی رائے میں اتنی بڑی تباہی کی دوسری کوئی وجہ نہیں ہو سکتی پاکستان کے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ اب تک ہونیوالے نقصان کا تخمینہ دس ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے جب سے عالمی ذرائع ابلاغ نے اس تباہ کن سیلاب کی خبریں دینی شروع کی ہیں مغربی ممالک میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ جدید معاشروں کی برق رفتار ترقی کی قیمت غریب ممالک ادا کر رہے ہیں یہ بات تو کئی برسوں سے زیر بحث ہے کہ دنیا کو جس ماحولیاتی تباہی کا سامنا ہے اس کی ایک بڑی وجہ ترقی یافتہ ممالک سے اٹھنے والے دھویں کے بادل ہیں‘غریب ممالک جہاں صنعتیں نہ ہونے کے برابر ہیں کرہ ارض کو خطرناک حد تک گرم کرنے کے جرم میں شامل نہیں ہیں‘اس اعتراف کے علاوہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ غریب ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے جو مالی‘تکنیکی اور علمی وسائل مہیا کئے جا رہے ہیں وہ ان سے استفادہ نہیں کر رہے ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں معلومات مہیا کرنیوالی مغربی ممالک کی جو این جی اوز غریب ممالک میں کام کر تی ہیں انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنا کام خاطر خواہ طور پر نہیں کر سکتیں‘پاکستان کے ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے موجودہ سیلابی ریلے پہاڑی اور میدانی دونوں علاقوں میں اپنے صدیوں پرانے آبی راستوں سے گذر رہے ہیں ان گذرگاہوں پر اگر عمارتیں یا تجاوزات کھڑی کر دی گئی ہیں تو سیلاب انہیں خاطر میں نہیں لائے گا اسکے راستے میں جو بھی آئیگا وہ اسے بہا کر لے جائیگا پچھلے تمام سیلابوں اور آج کے آبی ریلوں کا سبق یہی ہے کہ دریا کے راستے میں دیواریں کھڑی نہیں کرنی چاہییں اسکی علاقائی خود مختاری کا احترام اگر نہیں کیا جائیگا تو یہ بپھر جائیگا ان سیلابی ریلوں پر سینکڑوں کی تعداد میں ڈیم بنا کر ہی قابو پایا جا سکتا ہے انڈیا نے گذشتہ پچاس برسوں میں پانچ ہزار ڈیم بنائے ہیں اسی طرح بنگلہ دیش جسے نصف صدی پہلے سیلابوں کی سرزمین کہا جاتا تھا نے کئی سو ڈیم بنا کر طوفانوں کا رخ موڑ دیا ہے مگر پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر پرسوچ بچار تو کئی عشروں سے ہو رہا ہے مگر اس پر عملدر آمد آج تک نہیں ہوا۔ماحولیاتی ماہرین کے مطابق اتنے خوفناک سیلابوں کا مقابلہ صرف ڈیموں سے ن
اشتہار
مقبول خبریں
مشرق وسطیٰ‘ یحییٰ سنوار کے بعد
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
ڈونلڈ ٹرمپ‘ ناکامی سے کامیابی تک
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
کیا ٹرمپ کا امریکہ ایک مختلف ملک ہو گا
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی