منگل تیس اگست کو میخائیل گورباچوف کے انتقال کی خبر سن کر امریکی میڈیا نے جو رد عمل ظاہر کیا وہ خاصاحیران کن تھا اس شام کے نیوز چینل اور اگلے دن کے اخبارات گورباچوف کی تعریف و تحسین سے بھرے ہوئے تھے امریکی عوام شائد گورباچوف کو بھول چکے ہوں مگر اس ملک کا میڈیا اسے کبھی نہیں بھولے گا۔انچاس برس تک جاری رہنے والی سرد جنگ کے دوران دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان کسی بھی وقت ایٹمی جنگ کے شروع ہونیکا خطرہ منڈلاتا رہتا تھا وہ لوگ جنہیں اس طویل دور کی کشمکش اور کشیدگی یاد ہے جانتے ہیں کہ اسوقت کی دو عالمی طاقتوں کے درمیان ایک تصادم کی کیفیت کا ختم ہونا کتنا ضروری تھا۔ سوویت یونین میں گورباچوف کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے واشنگٹن اور ماسکو میں مفاہمت کے آثار دور دور تک نہ تھے سوویت یونین میں سات دہائیوں تک سخت گیر کمیونسٹ لیڈر بر سر اقتدار رہے تھے اسوقت امریکی عوام یہ جانتی تھی کہ سٹالن نے لاکھوں لوگوں کو ہلاک کیا تھا اور یالٹا کی مشہور کانفرنس میں اسنے صدر فرینکلن روزویلٹ سے تلخ کلامی کی تھی اسکے بعد خروشیف کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ اسنے صدر جان ایف کینیڈی کیساتھ ویانا کی سمٹ میٹنگ کے دوران غصے میں آکر اپنا جوتا میز پر بجایا تھا۔ نکیتا خروشیف کے گیارہ سالہ دور اقتدار کے خاتمے کے بعد 14 اکتوبر1964کوLeonid Brezhnevسنٹرل کمیٹی آف کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری بنے تھے۔یہ عہدہ کیونکہ کمیونسٹ پارٹی کو کنٹرول کرنے کے علاوہ خارجی اور داخلی معاملات کی بھی نگرانی کرتا تھا اسلئے اس کی سربراہی حاصل کرنے والے شخص کو سوویت یونین کا سربراہ مانا جاتا تھا۔برزنیف اٹھارہ برس تک اس عہدے پر متمکن رہے انکا دور حکومت سرد جنگ کے عروج کا زمانہ تھا برزنیف نے روایتی اور نیوکلیئر اسلحے کی دوڑ میں امریکہ کو پیچھے چھوڑنے پر اپنی توانائیاں صرف کیں۔ انکے دور میں سوویت یونین کی اقتصادی حالت خاصی مخدوش تھی سرکاری ملازمین اور فیکٹریوں کے کارکن تساہل کا شکار تھے۔ برزنیف ملک میں پھیلتی ہوئی کرپشن کا تدارک نہ کر سکے دس نومبر 1982 کو انکے انتقال کے موقعے پر انکا اٹھارہ سالہ دور حکومت اختتام کو پہنچا انکے بعد Yuri Andropov چودہ ماہ حکومت کرنے کے بعد گردے کے مرض میں مبتلا ہونے کے سبب 9 فروری 1984 کو انتقال پا گئے انکے بعد Konstantin Chernanko تیرہ ماہ حکمران رہنے کے بعد سانس کی بیماری کی وجہ سے
دس مارچ 1985 کو دار فانی سے کوچ کر گئے۔
ان دنوں مغربی دنیا میں یہ تاثر عام تھا کہ سوویت یونین کے بوڑھے اور بیمار لیڈروں سے تخفیف اسلحہ کی بات چیت نہیں ہو سکتی۔ دس مارچ 1985 کو میخائل گورباچوف جب چون سال کی عمر میں کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری بنے تو اس موقعے پر سینٹرل کمیٹی کے ایک ممبر نے کہا ” کل تک ہمارا ایک لیڈر آدھا زندہ تھا دوسرا آدھا مردہ تھا اور تیسرا بمشکل بات کر سکتا تھا“گورباچوف نے نہ صرف اپنے لوگوں کو ایک بہتر مستقبل کی خوشخبری سنائی بلکہ انکے انداز حکمرانی نے مغرب میں بھی اس تاثر کو تقویت دی کہ سوویت یونین میں ستر برس کی آمریت اور جمود کے بعد بلآخر ایک ایسا حکمران آ گیا ہے جس سے بات چیت کی جا سکتی ہے۔میخا ئل گورباچوف کے چھ سالہ دور حکومت میں مغربی
ممالک کو ان سے جتنی بھی توقعات تھیں وہ سب پوری ہوئیں مگر گورباچوف اپنے لوگوں کو سات عشروں کی کرپشن‘ سست روی اور تساہل سے نجات نہ دلا سکے انہوں نے بھرپور کوشش کی کہ وہ کسی طرح زنگ آلود نظام حکومت کو جدید دور کی توانائیوں سے رو شناس کرادیں مگر اس مقصد میں انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ سوویت یونین کے لبرل اور ترقی پسند طبقے نے انکا بھرپور ساتھ دیا مگر سٹیٹس کو کے حامی بیو رو کریٹ اور بزنس کلاس نے انہیں اپنا دشمن سمجھ کر انکی سخت مزاحمت کی۔ گورباچوف کو شہرت انکے دو غیر معمولی منصوبوں کیوجہ سے ملی ان میں سے ایک Glasnostتھا جسکا مقصد ایک ستم رسیدہ اور بند معاشرے کو آزادی سے ہمکنار کرانا تھا۔اس حکمت عملی کے تحت میڈیا کو آزادی دی گئی اور کمیونسٹ پارٹی کے ہر ممبر کو حکومت اور قیادت پر تنقید کا حق دیا گیا سوویت یونین کے بند اور سہمے ہوے معاشرے میں یہ ایک اچھوتا اور جرات مندانہ اقدام تھا۔ اسے ملک کے اندر اور باہر سراہا گیا اسکے ساتھ ہی معیشت کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے Prestroika یعنی تعمیر نو کا نظام نافذ کرنے کی کوشش کی گئی مگر سات عشروں
سے دھیرے دھیرے چلنے والا معاشرہ خواب غفلت سے بیدار ہونے کیلئے تیار نہ تھا۔ کمیونسٹ پارٹی کے بعض لیڈروں نے گورباچوف پر اعتراض کیا کہ وہ ایک نا ممکن کام کرنا چاہتے ہیں وہ کمیونزم کو فری مارکٹ اکانومی سے ملا کر ایک نیا نظام لانا چاہتے ہیں یہ بھی کہا گیا کہ وہ پبلک پراپرٹی کو پرائیویٹ پراپرٹی سے یکجا کرنا چاہتے ہیں ان پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ وہ Pluralism کے اصول پر چلتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی کو کئی حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ داخلی محاذ پر کامیابی کے معدوم امکانات کے پیش نظر انہوں نے امریکہ سے مفاہمت کر کے اسلحے کی دوڑ میں کمی کرنے کی کوشش کی وہ اس مقصد کو پانے میں کامیاب تو ہو گئے مگر وہ سوویت یونین کو تحلیل ہونے سے نہ بچا سکے گورباچوف نے اپنے ملک کو بکھرنے سے بچانے کی بہت کوشش کی مگر معاشی طور پر ایک کمزور ملک کو وہ امریکہ جیسے طاقتور اور خوشحال ملک کے مقابلے میں منہدم ہونے سے نہ بچا سکے۔صدر رونلڈ ریگن کیساتھ انہوں نے پہلی ملاقات 1985میں جینیوا میں کی پھر 1986 میں آئس لینڈ کے شہر Reykjavik میں دوسرا سمٹ ہوا ریگن اور گورباچوف کی تیسری ملاقات گیارہ دسمبر 1987کو واشنگٹن میں ہوئی۔ نیویارک ٹائمز کی کالم نگار Maureen Dowd نے گورباچوف کی وفات کے موقعے پر لکھا ہے کہ To see Gorbachev people were hanging out of windows and leaning over balconies, screaming " Gorby,Gorby"گورباچوف کے بارے میں کالم نگار نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ مغرب میں اتنا مقبول تھا کہ کسی بھی مغربی ملک میں وہ آسانی سے الیکشن جیت سکتا تھا مگر سوویت یونین میں وہ ایک غیر مقبول لیڈر تھا 9 نومبر 1989کو دیوار برلن کے گرنے کے بعد ایکطرف سوویت یونین کے انہدام کے آثار نمایاں ہو گئے تو دوسری طرف گورباچوف کے اقتدار کا سورج بھی غروب ہونے لگا اسکے بعد 24اگست 1991کو انکی کابینہ کے ایک وزیرBorris Yeltsin نے انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ میخائل گورباچوف ان ناکامیوں کے باوجود اپنے ملک کو ایک پرانے زنگ آلود نظام کے شکنجے سے آزاد کرانے میں کامیاب رہے انہوں نے اپنے وژن‘ ذہانت اور سیاسی تجربے کی وجہ سے اپنے ملک کو ہمیشہ کیلئے تبدیل کر دیا انکے مخالفین بھی انکی ان کامیابیوں سے انکار نہیں کر سکتے۔