امجد اسلام امجد لکھتے ہیں کہ کنہیا لال کپور کا قد لمبا اور جسم چھریراتھا‘ ایم اے انگریزی میں داخلہ لینے کیلئے وہ گورنمنٹ کالج لاہور آئے‘ پطرس انٹرویو بورڈ کے سربراہ تھے‘ انہوں نے ایک نظر کپور کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور پھر بے اختیار بولے مسٹر کپور‘ آپ سچ مچ اتنے لمبے ہیں یا آج انٹرویو کیلئے خاص اہتمام کرکے آئے ہیں‘انور نسیم نے ایک پرزور قہقہہ مارا اور پھر میرے نیم فارغ البال سر کی طرف دیکھ کر شرارت آمیز انداز میں بولے کنہیا لال کپور کا تو میں صرف ہم قد ہوں‘آپ سے تو میرا ہم زلف کا رشتہ ہے‘ پروین جو ہمیشہ مجھ پر فقرہ کسنے کی تاک میں رہتی ہے‘ خوش ہو کر بولی اب بولیں! میں نے کہا بھئی یہ ہم پنجابیوں کی آپس کی باتیں ہیں تم ان کو کیا سمجھو گی‘ بولی کیوں! مینو پنجابی آندی اے۔میں نے کہا‘ یہ بات ہے تو چلو چور نالوں پنڈ کاہلی کا مطلب بتاؤ‘ کہنے لگی یہ کالی کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا اول تو یہ ساؤنڈ اردو کی کالی اور کاہلی کے درمیان کی ہے اور دوسرے یہ کہ یہ ہوتا نہیں ہوتی ہے اور اس کا مطلب ہوتا ہے شتابی‘ جلدی‘ عجلت پسندی وغیرہ وغیرہ۔ بولی یہ ذرا مشکل ہے کوئی اور بتائیں‘ میں نے کہا چلو یہ بتادو کہ جٹ پیا جانے یا بجو پیا جانے‘ کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ بولی اس کا مطلب ہوتا ہے اپنے کام سے کام رکھو یعنی Mind your own Businessمیں نے کہا‘بالکل ٹھیک‘تم اس کا مطلب یہی سمجھو اور اپنے کام سے کام رکھو‘ ہمارے مذاق تمہاری سمجھ میں نہیں آئیں گے کیونکہ یہ بعض اوقات خود ہماری سمجھ میں بھی نہیں آتے‘ پروین میں یہ بڑی خوبی ہے کہ وہ جملہ کہنے کیساتھ ساتھ جملہ سہنے کا فن بھی جانتی ہے چنانچہ اس نے ایک خوش دلانہ قہقہے کیساتھ ایک اچھے شطرنج کے کھلاڑی کی طرح مات تسلیم کرلی‘ انور نسیم اس گفتگو کے دوران ایک غیر جانبدارانہ مسکراہٹ کیساتھ خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے جو آئندہ چند دنوں میں انہیں کئی بار دہرانا پڑا‘ انور نسیم نے بتایا کہ وہ گزشتہ برس پاکستان آئے تھے اور انہوں نے کشور ناہید سے کہا تھا کہ مجھے امجد اسلام امجد سے ملوا دو مگر آپ سے رابطہ نہیں ہوسکا‘ میں نے شرارتاً کہا یہ بات نہیں‘ اصل میں کشور کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دساور سے آئے ہوئے اچھے اچھے دانے مخصوص حلقے کیلئے رکھ لیتی ہے اور رہند کھوند (بچا کھچا)ہماری طرف بھیج دیتی ہے‘ میری اس بات سے گفتگو کا رخ کشور کے کمالات کی طرف مڑ گیا‘ ہم تینوں نے اپنے اپنے نوٹس ایکس چینج کئے تو ان میں حیرت انگیز حد تک مماثلت نکلی‘ ایک بات کا اعتراف البتہ ہم تینوں کو کرنا پڑا کہ سرکاری پبلسٹی کے ادارے اور انقلابی نعرے کو جس طرح کشور نے شیروشکر کیا ہے یہ اسی کاکام ہے۔ایک اور مقام پرامجد اسلام امجد کینیڈا کے جمہوری اداروں سے متعلق لکھتے ہیں کہ انور نسیم نے کہا‘ چلئے آپ کو آٹوا کی سیرکرائیں!اسلام آباد کو کسی نے ’کنکریٹ آئی لینڈ‘ کا نام دیا تھا کہ وہاں سنگ وخشت کے مختلف ڈھانچوں میں انسانوں کے بھیس میں ان کے گریڈ رہتے ہیں آٹوابھی بیورو کریٹوں کا شہر ہے لیکن اس کی فضا میں بیورو کریسی کی خوشبو تو ہے سانس روک دینے والی گھٹن نہیں‘ اسلام آباد سے آٹوا کی ایک اور مماثلت اس کا جڑواں شہر ہل بھی ہے فرق صرف یہ ہے کہ پنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سڑک ہے جب کہ آٹوا اور ہل کے درمیان دریائے آٹوا بہتا ہے جس کے کنارے سٹی ہال کی آٹھ منزلہ خوبصورت عمارت ہے جس کے مختلف پل دونوں شہروں کے درمیان نقطہ ہائے وصال کی طرح گزرنے والوں کو مشتاق نگاہوں سے دیکھتے رہتے ہیں‘ راستے میں وزیراعظم اور گورنر جنرل کے بنگلے دیکھے گورنر جنرل کی رہائش گاہ کے ایک محدود حصے کو چھوڑ کر سارا گھر عوام کی آمدروفت کے لئے چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے جمہوری نظام کے حوالے سے حزب اختلاف کی جو توقیر کینیڈا میں ہے وہ اپنی جگہ پر ایک روایت بننے کی حقدار ہے‘ قومی پارلیمنٹ ہاؤس کی بلندوبالا‘خوبصورت اور پروقار عمارتوں میں حکومتی پارٹی اور حزب اختلاف کو اپنے دفاتر اور دیگر ضروریات کے لئے علیحدہ علیحدہ عمارتیں دی گئی ہیں لیکن اس امر کا خصوصی لحاظ رکھا گیا ہے کہ ہر وہ سہولت جو حکومتی پارٹی کی عمارت کو حاصل ہے دوسری عمارت میں بھی بالکل اسی معیار اور مقدار کے ساتھ موجود ہو۔