ملکہ الزبتھ اور برطانوی سلطنت

ملکہ الزبتھ کے انتقال کی خبر سنتے ہی ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ بکنگھم پیلس کے گرد جمع ہو نے لگے کلیساؤں کی گھنٹیاں بجنے لگیں‘ درجنوں توپوں کا سلیوٹ پیش کیا گیا‘لوگوں نے شاہی محل کے باہر اور لندن کے چوراہوں میں گلدستوں کے ڈھیر لگا دئیے فٹبال ٹیم نے ویک اینڈ پر ہونے والے میچ کینسل کر کے لاکھوں پاؤنڈ کا نقصان کر دیا تمام ٹیلی و یژن چینلز نے روٹین کی نشریات چھوڑ کر ملکہ کے بارے میں پروگرام دکھانے شروع کر دئیے‘ مبصرین بتا رہے ہیں کہ 2002ء   میں کوئین الزبتھ دوم کی والدہ کی وفات کے موقع پر دو لاکھ لوگ Westminster Palace کے باہر جمع ہوئے تھے‘ 1965ء میں ونسٹن چرچل کے سفر آخرت میں شامل ہونے والوں کی تعداد ایک ملین تھی‘اب انیس ستمبر کو ملکہ الزبتھ کی آخری رسومات میں ایک ملین سے زیادہ لوگوں کی شرکت متوقع ہے‘ صدر بائیڈن کے علاوہ دنیا بھر سے صدور اور وزرائے اعظم لندن پہنچیں گے‘برطانیہ کی آئینی بادشاہت کی سربراہ سے لوگوں کی اس محبت کی وجہ ان کی طویل عرصے تک حکمرانی‘ نرم و ملائم لہجہ‘ دلآویز مسکراہٹ‘ سیاست سے لاتعلقی‘ اصول و ضوابط کی پابندی اور اپنے فرائض کی بروقت بجا آوری ہے۔

چھیانوے برس کی عمر میں وفات پانے والی Elizabeth Mary Windsorنے 1952ء میں پچیس سال کی عمر میں ملکہ برطانیہ بننے کا اعزازحاصل کیا تھا یہ ایک ایسا وقت تھا جب برطانوی سلطنت کا سورج غروب ہو رہا تھا‘ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد دو عشروں میں کئی نو آبادیاتی ممالک نے آزادی کا اعلان کر دیا تھا‘مورخین کے مطابق تاریخ عالم میں برطانیہ کے شاہی خاندان نے کسی بھی دوسری بادشاہت سے زیادہ طویل عرصے تک اور زیادہ لوگوں پر حکومت کی ہے‘یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ برطانیہ کے نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی محکوم اقوام کو ایک پر تشدد اور خوفناک سلطنت کے تسلط سے نجات مل گئی تھی‘انسانوں کو غلام بنا کر رکھنے کی یہ روایت آج بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے‘1948ء میں ملایا کے گورنر نے کمیونسٹ گوریلوں سے جنگ لڑنے کے لئے ایمرجنسی نافذ کر دی‘اس جنگ کے دوران برطانوی فوج نے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ہلاک کئے اس کے بعد ملکہ الزبتھ کے دور میں بھی برطانوی سلطنت کو برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔

1952ء میں کینیا میں لوگوں نے بغاوت کا علم بلند کیا اس موقع پر برطانوی سپاہ نے ہزاروں افراد کو حراستی کیمپوں میں بند کر کے تشدد کیا اسی طرح 1955ء میں قبرص اور 1963ء میں یمن میں نو آبادیاتی نظام سے آزادی حاصل کرنے کی تحریکوں کو سختی سے کچلا گیا‘ پھر تشدد کی یہ  لہر افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے ہوتی ہوئی برطانوی سلطنت کے مرکز میں آ پہنچی‘ آئر لینڈ میں آئرش ری پبلک آرمی نے ملکہ الزبتھ کے رشتے دار اور ہندوستان کے آخری وائسرائے لوئس مائنٹ بیٹن کو ہلاک کر دیا ایک امریکی مورخ Maya Jasanoff  نے لکھا ہے کہ ملکہ برطانیہ کو شاید یہ پتہ ہی نہ چلا ہو کہ ان کے نام پر کتنے ممالک میں تشدد کا بازار گرم کیا گیا‘الزبتھ دوم اڑتالیس برسوں تک ہر سال کسی نہ کسی کامن ویلتھ ملک کا دورہ کرتی رہیں‘ان شاہی دوروں کے دوران ان کے استقبال کے لئے آنیوالے ہجوم کے تالیاں بجانے اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے کے مناظر برطانوی اخبارات کی زینت بن کر انگریز وں کو برطانوی سلطنت کی شان و شوکت کے ابدی ہونے کا تاثر دیتے رہے۔

ملکہ برطانیہ نے 1952ء سے 2000ء تک کئی کامن ویلتھ ممالک جن میں جمیکا‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ اور کینیڈا شامل تھے‘میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ میل کا سفر کیا Maya Jasanoff نے لکھا ہے The British Empire largely decolonized, but the monarchy did not یعنی برطانوی سلطنت کا نو آبادیاتی نظام خاصی حد تک ختم ہو گیا‘ مگر بادشا ہت برقرار رہی مایا جیسا نوف نے لکھا ہے کہ سابقہ وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے عراق اورافغانستان کی جنگوں میں امریکہ کا ساتھ دے کر برطانوی سلطنت کے قائم و دائم ہونے کا تاثر دینے کی کوشش کی تھی‘آج افریقی ممالک کئی عشروں تک غلام رہ کر برطانوی سلطنت کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کا معاوضہ طلب کر رہے ہیں‘جنوبی افریقہ کئی مرتبہ کہہ چکا ہے کہ اس کا مہنگا ترین ڈائمنڈ اسے واپس کیا جائے انڈیا نے بھی ایک مرتبہ پھرملکہ برطانیہ کے تاج میں جڑے ہوئے کوہ نورہیرے کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے‘ ملکہ الزبتھ کی وفات کے فوراّّ بعد سابقہ کالونیوں سے اٹھنے والی صدائے احتجاج کے باوجود نئی وزیر اعظم لز ٹرس برطانوی عوام کو Global Britainیعنی عالمی برطانیہ تعمیر کرنے کی خوشخبری سنا رہی ہیں‘لگتا ہے کہ معاشی طور پر بد حال ہو جانے کے با وجودبرطانوی اشرافیہ کے مزاج میں سلطنت کا نشہ اور خمار ابھی تک باقی ہے۔