رضا علی عابدی اپنے ایک پروگرام کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ جب بی بی سی سے کتب خانہ کے عنوان سے پروگرام ہونے لگا اسی روز سے سامعین کے خطوں کا تانتا بندھ گیا وہ کہتے تھے کہ ہمارے بزرگوں کی کتابوں کا ذکر کسی نعمت سے کم نہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ خط لکھنے والے سامعین دو قسم کے تھے ایک تو وہ جنہیں حصول علم سے لگاؤ تھا اور دوسرے وہ جو کتاب پڑھنے کے معاملے میں ذرا سست ہیں تعریفوں نے طول کھینچا اور اوپر سے یہ کہ نہایت اعلیٰ طبقے کے اہل علم حضرات کے خط آنے شروع ہوئے پروفیسر آل احمد سرور‘ مولانا امتیاز علی خاں عرشی زادہ اور ابن انشاء مرحوم کے خطوں نے بی بی سی کی انتظامیہ کو بہت متاثر کیا اور مجھے اشارہ مل گیا کہ بارہ ہفتوں کی پابندی ختم جب تک چاہو پروگرام جاری رکھو اور ہر پروگرام جو صرف دس منٹ کا ہوتا تھا اس کا دوانیہ بڑھا لو‘کتب خانوں کی تلاش واقعی میں ایک مشکل لیکن انتہائی اہم کام ہے.
رضا علی عابدی اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ فیض احمد فیض مرحوم لندن آئے ہوئے تھے ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے خوش ہو کر بتایا کہ ہندوستان پاکستان میں بزرگوں کی چھوڑی ہوئی کتابوں کے ذخیرے دیکھنے جارہا ہوں واپس آکر ریڈیو کیلئے ایک دستاویزی پروگرام تیار کرونگا فیض صاحب نے اتنا ہی خوش ہوکر پوچھا کہ کتنے عرصے کا دورہ ہوگا میں نے کہا ایک ماہ‘ وہ صاف نہیں سن سکے اور بولے کہ ایک سال تو اس کام کیلئے بہت کم ہے‘ سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس روز سچ نہیں بولا تھامجھے اندازہ تھا کہ اتنے بڑے کام کیلئے بی بی سی والے مجھے صرف پندرہ دن دے رہے ہیں یہ سوچ کر کہ فیض صاحب کیا کہیں گے میں نے ایک ماہ کی نوید سنادی پھر یہ ہوا کہ جب میں برصغیر کے دورے پر پہنچا اور قدیم کتابوں کے ذخیروں کی کھوج میں نکلا تو اندازہ ہوا کہ فیض صاحب سچ کہتے تھے.
اتنے بڑے کام کیلئے ایک سال تو کچھ بھی نہیں‘میں نے طے کیا کہ مجھے سالانہ چھٹیوں کا ایک مہینہ ملا ہے‘وہ بھی اسی کام کی نذر کروں گا میں یہ جانتا تھا کہ جس کام میں جی لگے اور خوشی حاصل ہو اسے چاہے دنیا کام کہے مجھے تو اسی میں چھٹی کا لطف آتا ہے تو یہ ہوا کہ کونے کھدروں میں جاکر بزرگوں کی کتابیں دیکھنے کا کام میں نے ڈیڑھ ماہ میں انجام دیامیرے اس دورے کا بنیادی خیال یہ تھا کہ دیکھا جائے کہ برصغیر میں ہمارے بزرگوں کی چھوڑی ہوئی کتابیں کہاں کہاں ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کس حال میں ہیں۔ اس کی تمہید پہلے باندھی جاچکی ہے کہ جب ہم نے برطانیہ کے کتب خانوں میں محفوظ اردو کی انیسویں صدی کی کتابوں کے بارے میں ایک سوچالیس پروگرام نشر کئے تو سننے والے نے بڑے دھیان سے سنے لیکن جب ہم نے کہا کہ بس یہ سلسلہ یہیں ختم ہوتا ہے تو احتجاج اور شکایتوں کی ایک لہر آئی جس کی نمائندگی سامعین کا یہ ایک فقرہ کرتا ہے کہ ایک تو آپ ہماری کتابیں لے گئے اوراب انہیں پڑھ کر سنارہے تھے اسے بھی بند کررہے ہیں.
بی بی سی نے اس اعتراض کا جواب یوں دینا چاہا کہ بزرگوں کی چھوڑی ہوئی کتابوں کے خود برصغیر کے اندر بھی بڑے بڑے ذخیرے موجود ہیں میرے سفر کا نقشہ اردو سروس کے سربراہ ڈیوڈ پیج نے یوں تیار کیا کہ اسے دیکھیں تو لگتا ہے کہ میں انسان نہ تھا گھن چکر تھا ایک روز کراچی‘ایک روز حیدر آباد‘سندھ ایک دن لاہور‘ایک دن دلی‘ایک دن رام پور‘ ایک دن لکھنو ایک دن پٹنہ ایک دن بھوپال اور ایک روز حیدر آباد دکن‘ اس دوران مجھے نہ صرف ایک بھاری بھر کم موضوع پر تحقیق کرنی تھی بلکہ حیدر آباد سندھ اور پٹنہ‘بہار میں اردو سروس کے سامعین کو ایک ایک ٹی پارٹی بھی دینی تھی اس طرح کے دورے ڈیوٹی ٹور کہلاتے تھے عملے کے مستعد افراد کو کبھی کبھار برصغیر کے دورے پر بھیجا جاتا تھا تاکہ جس خطے کیلئے پروگرام نشر کئے جاتے ہیں اسکے بارے میں آگاہی رہے ڈیوٹی ٹور پر جانیوالے کے ذمے دوکام تھے اول تو ایک دومقامات پر سامعین کو ٹی پارٹی دے اور دوسرے یہ کہ مفید اور کارآمد لوگوں سے ملاقاتیں کرے اور واپس آکر ایک رپورٹ لکھ دے اور بس اس کیلئے تمام اخراجات ادا کردیئے جاتے تھے اور سچ تو یہ ہے کہ دورے پر جانے والوں کی بہت آرام سے گزرتی ہوگی میں دس سال تک دیکھتا رہا میرے سینئر اور بااختیار ساتھی ہر بار خود ہی ڈیوٹی ٹور پر چلے جاتے تھے اس میں بھی کوئی مصلحت ہوگی۔