عزم و حوصلے کی مثال

پی ٹی وی کے سابق سربراہ آغا ناصر ٹوکیو کے سفر سے متعلق لکھتے ہیں‘رات گئے جب ہم ٹوکیو کے ائر پورٹ پر پہنچے تو ائر پورٹ گہرے بادلوں سے گھرا ہوا تھا‘آسمان پر اندھیرا تھا مگر ائرپورٹ تیز روشنیوں سے بقعہئ نور بنا ہوا تھا‘ہر طرف چہل پہل تھی‘ آنے اور جانے والوں کاہجوم تھا اور لاؤنج مسافروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہمارے ساتھ آنیوالے مسافر جلد سے جلد اپنا سامان حاصل کرنے کے بعد روانہ ہوگئے لیکن ہمیں کوئی عجلت نہیں تھی‘ ہمیں علم تھا کہ ہمارے میزبانوں کی طرف سے کوئی لینے کیلئے آیا ہوگا‘ سفر پر روانہ ہونے سے قبل جاپان کے سفارتخانے سے ہمیں بہت سا معلوماتی لٹریچر فراہم کیاگیا تھا‘ ایک سرخ رنگ کا چھوٹا سا کتابچہ بھی شامل تھا جس میں روزمرہ ضرورت کے الفاظ اور اصطلاحات کے جاپانی متبادل درج تھے تاکہ جاپان آنے سے پہلے ان الفاظ کو ذہن نشین کرلیاجائے‘جاپان ایمبسی کے فراہم کردہ پروموشنل میٹریل میں جاپان کی تاریخ‘ جغرافیہ اور کلچر کے بارے میں معلومات درج تھیں۔

اسوقت تک جاپان کے بارے میں ہماری معلومات ٹیوٹا اور ڈاٹسن کاروں‘سونی اور نیشنل ٹیلی ویژن اور ریڈیو ٹرانسسٹروں تک محدود تھیں‘ابھی جاپان نے صنعتی شاہراہ پر اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اور کچھ وقت باقی تھا کہ ساری دنیا الیکٹرانک اور آٹو موبائل کے شعبوں میں جاپان کے زیر نگیں ہو جائے‘لوگوں کے ذہنوں میں دوسری جنگ عظیم کی یادیں ابھی تک تازہ تھیں‘ جاپان نے امریکہ کے فوجی تسلط کے دوران اسے فوجی سرگرمیوں سے قطعی طورپر محروم کردیا اور جاپانیوں نے اپنی تمام ترتوجہ معاشی اور صنعتی صورتحال کو بہتر بنانے کی جانب مبذول کردی تھی اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت جلد جاپان نے معاشی ترقی کے ذریعے دنیا میں ایک ممتاز مقام حاصل کرلیا‘ایک او ر مقام پرآغا ناصرزیڈ اے بخاری سے ملاقات اور ایک دانشور سے متعلق بخاری صاحب سے سنا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بخاری صاحب سے میری آخری ملاقات تھی غالباً میں ایک مختصر دورے پر کراچی گیاتھا۔

ایک صبح کراچی ٹی وی کے جنرل منیجر نے مجھے بتایا کہ بخاری صاحب کافون آیاتھا وہ خفا ہو رہے تھے کہ اس بار میں ان سے ملنے کیوں نہیں آیا‘میں نے کہا انہیں معلوم ہے کہ میں ان سے ملے بغیر نہیں جا سکتا شام کو جنرل منیجر نے بتایا کہ کل دوپہر لنچ پر بخاری صاحب نے آپ کو بلایا ہے۔محفل جب ختم ہونے کے قریب تھی تو میں نے کہا’بخاری صاحب آپ جیسے بزرگوں کا دم غنیمت ہے‘آپ سے ملاقات کے بعد زندگی میں ایک نئی امنگ سی پیدا ہو جاتی ہے‘میاں ہم کیا اور ہمارا دم کیا‘ بزرگ تو ایسے ہوتے ہیں جیسے مرزا محمد سعید“ پھر انہوں نے کہا ”یہاں سے کچھ دور اس پل کے پار وہ علاقہ ہے جس کو انٹیلی جنس سکول کے نام سے پکارا جاتا ہے وہیں ہم نے آزادی کے فوراً بعد ایک عارضی قسم کا ریڈیو سٹیشن لگایا تھا۔ بے سرو سامانی کا عالم تھا نہ بیٹھنے کو کرسیاں نہ لکھنے کو میز۔

 ایک پرانی آرمی بیرک میں ریڈیو سٹیشن تھا مگر جذبہ سب کا ایسا کہ لوگ صبح سویرے نہ جانے کس کس طرح وہاں پہنچ جاتے تھے اور پھر شام کو دیر تک پروگرام کی تربیت‘ ریہرسل‘ میٹنگوں میں مصروف رہتے تھے‘ بڑے افسروں سے لیکر معمولی درجہ کے ملازمین تک‘ بخاری صاحب نے ذرا وقفہ دیا اور پھر بولے ایک روز میں اپنی گاڑی لیکر گھر واپس جانے کیلئے نکلا‘میں بہت تھکا ہوا تھا‘آرام سے گاڑی چلا رہا تھا کہ میں اس سامنے والی سڑک پر جہاں اب میٹرو پول ہوٹل ہے فٹ پاتھ پر مرزا سعید کو چھڑی ہاتھ میں لئے گزرتے دیکھا‘ مرزا سعید ایک بڑے دانشور تھے‘ میں نے انہیں دیکھ کر گاڑی آہستہ کرلی اور جب انکے بالکل قریب پہنچا تو اپنی گاڑی روک کر دروازہ کھولا اور کہا”قبلہ گاڑی میں آ جائیے۔

 انہوں نے مجھے دیکھا مسکرائے اور سمٹے سمٹائے کار کی اگلی نشست پر میرے برابر بیٹھ گئے‘ ہم باتوں میں مصروف بند روڈ ایکس ٹینشن تک پہنچ گئے‘یہاں سے مجھے پھر گری روڈ کی طرف مڑنا تھا مجھے اچانک خیال آیا اور میں نے مرزا سعید سے دریافت کیا ’حضرت بے خیالی میں پوچھنا بھول گیا۔ آپ کو اترنا کہاں ہے؟ انہوں نے ٹھہری ہوئی کار کا دروازہ کھولا اور باہر نکل کر کہا ’میں تو وہیں رہتا ہوں جہاں سے آپ نے مجھے گاڑی میں بٹھایا تھا‘ وہ میرے جواب کا انتظار کئے بغیر تیز تیز قدموں سے واپس جانے والے فٹ پاتھ کی طرف چلے گئے۔