وطن عزیز کی آزادی کیساتھ ملک کی تعمیر وترقی اور حفاظت کا جذبہ مثالی تھا معروف براڈ کاسٹر آغا ناصر اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ محلے کے لڑکوں سے جان پہچان یا ان کیساتھ کھیلنے کا کوئی وقت ملتا ہی نہیں تھا صرف اتوار کا ایک دن تھا جب میں صبح سویرے سرکاری ہسپتال کے سامنے والے میدان میں نوجوان رضا کاروں کی پریڈ کیلئے جاتا تھا دہلی کے ایک پرانے مسلم لیگی رضا کار خلیل الرحمن ہر صبح تربیتی پریڈ سے پہلے ایک تقریر کرتے تھے جس میں پاکستان سے محبت اور دل لگا کر کام کرنے کی تلقین ہوتی ایمانداری کی بات ہے ان کی تقریر کا ہم سب لڑکوں پر بہت اثر ہوتا تھا کچھ عرصہ بعد سالار صاحب نے ہم سب سے کہا کہ اپنے گھروالوں سے رضا کار ٹریننگ کیلئے کچھ کچھ چندہ لائیں۔
انہوں نے اس چندے سے ہم سب کیلئے بڑی شاندار اور خوبصورت فوجی وردیاں سلوادیں اور فوجی بوٹ خریدے کچھ دن بعد انہوں نے بہت سے لڑکوں کو دکانداروں سے چندہ جمع کرنے کیلئے بھی بھیجا اور اس طرح اچھی خاصی رقم جمع ہوگئی پھر پاکستان مسلم لیگ کی طرز پر ایک بڑا جلسہ کیاگیا جس میں نوجوانوں نے بھرپور حصہ لیا خان لیاقت علی خان کے سیکرٹری کو رضاکاروں کے سالارنے مہمان خصوصی کے طور پر بلایا میرے لئے یہ تقریب بڑی اہمیت رکھتی تھی کیونکہ اسکی اناؤنسمنٹ کاکام مجھے سونپاگیا تھا رضا کاروں کے ٹریننگ گروپ میں مجھے ایک لڑکا اچھا لگا اور اس سے کافی حد تک میری جان پہچان ہوگئی وہ میرے گھر کے قریب ہی رہتا تھا لہٰذا وہ کبھی کبھی شام کو مجھ سے ملنے آجاتا اور ہم دونوں سڑک کے پار جنگل میں اپنی اپنی غلیلیں لیکر چلے جاتے جہاں ببول اور باداموں کے درخت تھے مگر ہمیشہ وہ مغرب سے پہلے ہی واپس چلا جاتا تھا۔
ایک روز میں نے پوچھا تم کیوں چلے جاتے ہو؟ تو اس نے بتایا میرے ابا نے اگلے بلاک سے آگے ایک چھوٹے سے میدان میں نماز پڑھانے کا انتظام کیا ہوا ہے میں ان کی مدد کیلئے جاتا ہوں تاکہ نمازیوں کیلئے چٹائیاں بچھا سکوں اور دوسرے کام کرسکوں میں نے کہا میں بھی چاہتا ہوں کہ تمہارے ساتھ چلوں ’یہ تو ثواب کاکام ہے اس نے جواب دیا اس طرح اگلی شام میں اس کیساتھ چلاگیا اس کے ابا کسی سرکاری دفتر میں ہیڈ کلرک تھے بڑے نیک انسان تھے نماز کے اوقات میں پہلے خود اذان دیتے‘پھر نماز پڑھاتے۔ آغا ناصر اپنی کتاب میں ایک سینئر نیوز کاسٹرکی ریڈیو سے وابستگی کی داستان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مجھے تقریباً ہر ہفتہ ایک مخصوص لیٹر ہیڈ پر بہت خوبصورت ہینڈ رائٹنگ میں لکھا ہوا ایک خط ملا کرتا تھا جس میں گزشتہ ہفتہ کے ڈرامے پر نہایت سنجیدہ ناقدانہ تبصرہ ہوتا‘طرز‘اسلوب بیان اور سب سے بڑھ کرایسی خوش خط تحریر جیسے کسی نے الفاظ کی صورت میں موتی ٹانک دیئے ہوں۔
ہم لکھنے والی پیامی کے پروگرام میں جواب دیتے رہے‘ایک روز محمود علی نے مجھ سے کہاکہ ’جو لڑکی ڈرامہ سے اتنی دلچسپی رکھتی ہو اور اس قدر پر مغز تبصرے لکھتی ہو وہ یقینا ڈراموں میں حصہ لینے کی بھی خواہش مند ہوگی کیوں نا ہم اسے آڈیشن کیلئے مدعو کریں‘بات معقول تھی‘اگلے ہی روز میں نے اس لڑکی کے پتہ پر ایک خط ارسال کردیا جس میں اسے آڈیشن کیلئے مدعو کیا گیا تھا چند روز بعد مجھے اس کا جواب آیا اس نے میری دعوت کا شکریہ اداکیا اور معذرت چاہی تھی کہ کچھ خانگی مجبوریوں کے سبب ایسا نہیں کر سکتی مگر میں نے پکا ارادہ کرلیا کہ اس کو کسی نہ کسی صورت ڈراموں میں ضرور لانا ہے چاہے مجھے اس کے گھر جاکر اس کے اہل خاندان سے ہی بات کیوں نہ کرنی پڑے میں نے کئی بار ٹیلیفون پر اصرار کیا مگر وہ مجبوری کا اظہار کرتی رہی آخر مسلسل اصرار نے اسے مجبور کردیا۔
جس نے بھی اس کی آواز سنی عش عش کراٹھا میں نے اس سے وعدہ کے مطابق ڈرامے میں شریک ہونے اصرار نہیں کیا مگر چلتے ہوئے سلیم احمد کے نئے کھیل کا سکرپٹ اس کے حوالے کیا اور کہا اسے پڑھ لینا اس میں ایک رول ہے جو آپ سے کروانا چاہتا ہوں جب آپ سمجھیں کہ آپ نے میری بات مان لی ہے تو اطلاع کردیجئے گا کوئی ہفتہ پھر بعد فون آیا اس نے ڈرامہ میں حصہ لینا قبول کرلیا تھا جب وہ ڈرامہ نشر ہوا تو ہر طرف دھوم مچ گئی ایک نیا ریڈیو سٹار پیدا ہوگیاتھا اس لڑکی کا نام ثریا شہاب تھا۔