تعلیم کے دوران طالبعلموں اور ا ن کے والدین کیلئے ایک اہم مرحلہ شعبے کے انتخاب کا ہوتا ہے یہی انتخاب آگے کیلئے تعلیم کی راہیں متعین کرتا ہے ریڈیو اور ٹیلی وژن میں سربراہوں کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے والے آغاناصر اپنی لکھائی کے اسلوب میں اپنی تعلیم کے اس اہم مرحلے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اباجی کی جانب سے کالج میں داخلہ لینے کی اجازت کے بعد مجھے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کارزار حیات میں اپنے مستقبل کیلئے کونسی راہ منتخب کروں‘ فیصلہ مشکل تھا مگر اباجی نے ایک بار پھر میری مدد کی اور انہوں نے سارا اختیار مجھے سونپ دیا۔”ہر پیشہ اچھا پیشہ ہوتا ہے‘بشرطیکہ پسند ہو‘ میری مرضی یہ ہے کہ تم خود اپنے لئے مستقبل کی راہ متعین کرو“میں نے اباجی کے مشورے پر غور کیا‘ فیصلہ کیا اور اگلے روز سندھ مسلم کالج سے فرسٹ ائیر میں داخلہ کا فارم لے آیا۔قریشی صاحب کے کالج کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کی کلاسیں شام میں ہوتی تھیں اور بیشتر طالبعلم ملازمت پیشہ تھے‘ اسلامیہ کالج کے پرنسپل اے ایم اے مولوی نامی ایک بڑے درویش صفت انسان تھے جو اس سے قبل سندھ مسلم کالج کے پرنسپل بھی رہ چکے تھے‘ ان کی شہرت یہ تھی کہ اپنی تنخواہ کابڑا حصہ ضرور تمند طالبعلموں میں تقسیم کردیا کرتے تھے‘اسلامیہ کالج کے قیام کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک اور کالج وجود میں آیا جس کا نام اردو کالج تھا‘ اس کے بانی بابائے اردو مولوی عبدالحق تھے‘ یہاں ساری تدریس اردو زبان میں ہوتی تھی‘ اساتذہ کی بڑی تعداد حیدر آباد دکن سے آنے والوں کی تھی‘ یہ سارے کالج پرائیویٹ سیکٹر میں تھے البتہ لڑکیوں کیلئے گورنمنٹ ویمن کالج قائم ہوچکا تھا جس کی پرنسپل معروف ماہر تعلیم زینت رشید احمد تھیں جو ریڈیو پاکستان کے ایک بڑے افسر رشید احمد کی بیگم تھیں۔پہلے روز جب میں سندھ مسلم کالج میں داخلہ کا فارم لینے گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ کراچی کے زیادہ تر کالج ایک ہی علاقہ میں واقع ہیں‘ اسٹاپ پر اترتے ہی انسان کو احساس ہوتا تھا کہ یہ طالبعلموں کا علاقہ ہے‘ ہر سمت نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہاتھوں میں کاپیاں کتابیں اٹھائے آتے جاتے نظر آتے تھے۔چیف کورٹ کے سامنے سندھ مسلم کالج کی عمارت بہت سادہ اور آسان تھی‘ گراؤنڈ فلور پر چھوٹا سا دفتر ایڈمنسٹریشن کا تھا‘ اوپر کی منزل پر سارے کلاس روم، اساتذہ کے کمرے،پرنسپل کا آفس تھا‘ کالج کی کمپاؤنڈ میں اس مرکزی عمارت کے علاوہ ایک بہت بڑا شیڈ بنا ہوا تھا جسے کامن روم کہا جاتا تھا‘ کامن روم کے عقب میں ایک چھوٹی سی کینٹین تھی‘ جس سے ذرا ہٹ کر ایک پانی کا حوض تھا جو ہمیشہ سوکھا پڑا رہتا تھا‘ کمپاؤنڈ میں داخل ہونے کیلئے دو چھوٹے چھوٹے گیٹ تھے‘ برنس روڈ کی جانب کھلنے والے گیٹ کیساتھ ہی مرکزی عمارت کے نچلے حصہ میں لڑکیوں کا کامن روم تھا جس کے دروازے پر ایک چک پڑی ہوتی تھی۔پہلے دن جب میں کالج کی عمارت میں داخل ہوا تو بڑی چہل پہل تھی‘ فرسٹ ائیر میں داخلہ کیلئے لڑکوں کا خاصہ ہجوم تھا‘ میں نے داخلہ فارم حاصل کرکے پُر کیا اور ایڈمنسٹریشن کے دفتر میں داخل کراکے رسید حاصل کرلی‘ اپنی زندگی کے ایک اور اہم دن کا تذکرہ کرتے ہوئے آغا ناصر مزید لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کے دور صدارت میں 16 جون 1988ء کا دن میرے لئے ذاتی زندگی کے حوالے سے ایک اہم دن تھا صدیق سالک نے مجھے بتایا کہ آج سیکرٹری بدلا جارہا ہے‘اور ایم ڈی؟ میں نے دریافت کیا وہ مسکرایا اور اس نے کہا ’میرا مشورہ بڑا واضح اور مدلل تھا آپ نروس نہ ہوں ’مگر‘ میں نے کہا کوئی واضح بات میری سمجھ میں آئی نہیں واپس لوٹا تو دفتر میں میرے لئے سید منیر حسین صاحب کا پیغام تھا کہ بات کروں جب ان سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا’آغا صاحب کچھ ڈویلپمنٹ ہے آپ ابھی دفتر ہی میں رہیں میں پھر فون کرونگا‘ڈیڑھ دو گھنٹے بعد ان کا فون آیا انہوں نے بتایا کہ مجھے ٹی وی کے منیجنگ ڈائریکٹر کی پوسٹ سے ہٹا دیاگیا ہے‘جانے کس بات پر میرا پہلا تاثر ایک بہت بڑے بوجھ سے نجات حاصل ہوجانے کا تھا۔
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
ٹرین کا سفر
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات