ڈالر‘ہماری کرنسی آپکا پرابلم

John Connally صدر نکسن کا Treasury Secretary تھا اگست 1971 میں امریکہ کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کو سہارا دینے کیلئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ ڈالر کو Gold Standardسے الگ کر دیا جائے چاہئے تو یہ تھا کہ صدر نکسن یہ فیصلہ یورپی اتحادیوں کو اعتماد میں لیکر کرتے مگر انہوں نے کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے یکطرفہ طور پر اس نئی پالیسی کا اعلان کر دیا۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی ممالک کے مابین طے پانے والے متفقہ عالمی اقتصادی نظام سے رو گردانی تھی۔ اسلئے اس اقدام کو Nixon Shock کہا جاتا ہے اسکے دو ماہ بعدJohn Connally روم میں G-10  کانفرنس میں شرکت کیلئے گئے وہاں یورپی ممالک کے وزرائے خزانہ نے امریکہ کی اس نئی معاشی پالیسی کو یورپ کیلئے نقصان دہ قرار دیا۔جان کونیلی پہلے تو اس بات کو ٹالتے رہے مگر جلد ہی برہم ہوگئے اور کھلے لفظوں میں کہہ دیا کہ " The dollar is our currency, but it is your problem" جان کونیلی اگر آج زندہ ہو تے تو وہ بالکل یہی بات ان ممالک کو سمجھانے کی کوشش کرتے جنکی معاشی حالت ا س وجہ سے دگرگوں ہو رہی ہے کہ انکی کرنسی ڈالر سے جڑی ہوئی ہے ڈالر کی پرواز کیونکہ ہر روز بلند ہو رہی ہے اس وجہ سے ترقی پذیر ممالک کے قرضوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

 پچاس برس پہلے بھی خوشحال اور بد حال دونوں طرح کے ممالک ڈالر کے رعب و دبدبے کی دہائی دیتے تھے اور آج بھی یہی ہو رہاہے ایسا مگر کیوں ہے یورپی ممالک کی یورو کے نام سے اپنی کرنسی ہے جاپان کا Yen بھی اتنا گیا گذرا نہیں،چین دنیا کی دوسری بڑی اکانومی ہے اسکی کرنسی Renminbi  بھی طاقتور سمجھی جاتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ملکر بھی ڈالر کا مقابلہ نہیں کر سکتیں اسکی وجہ یہ ہے کہ ڈالر دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونیوالی کرنسی ہے اگر اسے عالمی معاشی نظام سے نکال دیا جائے تودنیا بھر کے ممالک مختلف کرنسیوں میں تجارت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔عالمی منڈی میں جس برق رفتاری سے ڈالر کی وجہ سے ہرروز کاروبار ہوتا ہے۔ اسکا عشر عشیر بھی پھر نہ ہو سکے گا۔امریکہ کے فیڈرل ریزرو بینک کے مطابق گذشتہ بیس برسوں میں لاطینی امریکہ کے ممالک نے 96 فیصد تجارت ڈالر کے ذریعے کی۔ اسی عرصے میں ایشیا پیسیفک کے ممالک نے 74  فیصد اور باقی کی دنیا نے 79  فیصد تجارت ڈالر میں کی اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی ملک کو عالمی منڈی میں خرید و فروخت کرنے کیلئے ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امریکہ اپنی طاقتور کرنسی کو خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے اہداف حاصل کرنے کیلئے استعمال کرتا ہے۔

 امریکہ کا Department of Treasury کسی بھی ملک یا کمپنی پر اقتصادی پابندیاں لگا کر اسے مفلوج کر سکتا ہے ایران‘  وینزویلا اور شمالی کوریا تین ایسے ممالک ہیں جنکی معیشت پر سخت پابندیاں لگا کر انہیں عالمی منڈی سے باہر نکال دیا گیا ہے۔آجکل یوکرین جنگ کی وجہ سے روس کیساتھ بھی یہی سلوک ہو رہا ہے ناپسندیدہ ممالک کا جینا دوبھر کرنے کے علاوہ واشنگٹن اپنی کرنسی کو افراط زر کم کرنے کے لئے بھی استعمال کرتا ہے امریکی معیشت جب کبھی افراط زر کے نرغے میں آ جائے تو اس عفریت سے چھٹکارے کیلئے انٹرسٹ ریٹ بڑھا دئے جاتے ہیں۔ یہ ریٹس اگرہر تین یا چھ ماہ بعد One Quarter of a Point کے حساب سے بڑھائے جائیں تو دوسرے ممالک کے قرضوں میں اضافہ تو اس صورت میں بھی ہوگا مگر انہیں سانس لینے کا موقع مل جائے گا لیکن امریکہ کا فیڈرل ریزرو بینک آجکل ہر تین ماہ بعد اپنے انٹرسٹ ریٹس Three quarter of a pointبڑھا رہا ہے جسکی وجہ سے عالمی معیشت تیزی سے کساد بازاری کی طرف بڑھ رہی ہے۔ 

جب یہ خبر پھیل جاتی ہے کہ امریکہ میں انٹرسٹ ریٹس بڑھ رہے ہیں تو دنیا بھر کے دولتمند اپنا سرمایہ امریکی بینکوں میں منتقل کرنا شروع کر دیتے ہیں امریکہ کو دیکھتے ہوے یورپی یونین نے بھی انٹرسٹ ریٹس 0.75 پرسنٹ بڑھا دئے ہیں اسطرح سے یورپ کا سرمایہ دار تو شائد امریکہ کا رخ نہ کرے مگر ترقی پذیر ممالک کے دولتمند انتظار نہیں کرتے وہ پلک جھپکتے میں اپنا سرمایہ امریکہ جیسی محفوظ پناہ گاہ میں پہنچا دیتے ہیں۔ اس وجہ سے پسماندہ ممالک کی معیشت لرزہ بر اندام ہو جاتی ہے اتنے بڑے پیمانے پر معاشی تباہی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوے ستایئس ستمبر کے نیو یارک ٹائمز کی لیڈ سٹوری میں لکھا ہے The Federal Reserve's determination to crush inflation at home by raising interest rates is inflicting profound pain in other countries   یعنی فیڈرل ریزرو کا یہ عزم کہ ملک میں افراط زر کم کرنے کیلئے انٹرسٹ ریٹس بڑھائے جائیں۔

 دوسرے ممالک کے مصائب میں شدید اضافے کا باعث بن رہا ہے اس خبر کے مطابق اس وجہ سے ایک طرف قیمتیں بڑھ رہی ہیں تو دوسری طرف غریب ممالک کے بے ہنگم قرضوں میں ہر وز اضافہ ہو ہا ہے اخبار نے لکھا ہے کہ انٹرسٹ ریٹس میں اس اضافے کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے اور ترقی پذیر ممالک کی کرنسیوں کی قیمت کم ہو رہی ہے اب اس معاشی تباہی نے برطانیہ اور یورپ کے دوسرے ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ٹائمز کی رپورٹر Patricia Cohen نے لکھا ہے کہ طاقتور ڈالر نے ارجنٹائن‘  مصر اور کینیا کو ڈیفالٹ کے دھانے پر پہنچا دیا ہے اسکے علاوہ For the rest of the world it is a no win situationان الزامات کے دفاع میں فیڈرل ریزرو کے ترجمان نے کہا ہے کہ اگر امریکہ میں تیزی سے بڑھتے ہوئے افراط زر پر قابو نہ پایا گیا تو اسکے اثرات عالمی معیشت پر زیادہ تباہ کن ہوں گے بہر حال یہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں والا معاملہ ہے امریکہ تو افراط زر پر قابو پا لیگا مگر اسکا ڈالر نہ جانے کب تک دوسرے ممالک کیلئے درد سر بنا رہے گا۔