انوکھی سوچ


 ایسے واقعات جو کسی کے ذہن میں محفوظ کرنا مقصود ہو‘بہت بڑا فن ہے جو مشہور مصنف اور دانشوراشفاق احمد بخوبی جانتے تھے‘ انہیں اس کا ادراک تھا کہ کس طرح سامعین اورقارئین کو اپنے مشاہدات اور تجربات سے ایسے انداز میں آگاہ کریں کہ جس سے نہ صرف وہ واقعات ان کی توجہ حاصل کریں بلکہ ان کے پیچھے جو پیغام موجود ہے وہ بھی بخوبی ان تک پہنچ جائے۔ اپنی نشری تقاریر میں اشفاق احمد نے یہ کام انتہائی مہارت سے کیا ہے۔انہوں نے ایسے واقعات بیان کئے ہیں جو عام زندگی میں کسی کی توجہ کا مرکز نہیں بنتے اور نہ ہی کوئی ان کو اس قابل سمجھتا ہے کہ اس سے کوئی درس حاصل کرے تاہم جس اچھوتے اور دلکش انداز میں انہوں نے نشری تقاریر میں وہ واقعات اور مشاہدات بیان کئے ہیں وہ ان کا ہی خاصہ تھا۔ایک مقام پر بیان کرتے ہیں کہ  لاہور اور شیخوپورہ روڈ پر کئی ایک کارخانے ہیں ایک بار مجھے وہاں جانے کا اتفاق ہوا جب میں وہاں کام کرکے فارغ ہونے کے بعد لوٹا او ر گاڑی سٹارٹ کرنے لگا تو وہ سٹارٹ نہ ہوئی خیر میں نے ڈرائیور سے کہا کہ تم اپنی کوششیں جاری رکھو مجھے جلدی واپس جانا ہے
 لہٰذا میں بس میں چلا جاتا ہوں تم بعد میں آجانا‘جب میں بس میں بیٹھا تو وہاں اور سواریاں بھی تھیں ایک نیند میں ڈوبا ہوا نوجوان بھی تھا جس کی گودی میں ایک خالی پنجرہ تھا جیسے کبوتر یا طوطے کا پنجرہ ہوتا ہے‘وہ نوجوان اس پنجرے پر دونوں ہاتھ رکھے اونگھ رہا تھا جب اس نے آنکھیں کھولیں تو میرے اندر کا تجسس جاگا اور میں نے اس سے بات کرنا چاہی میں نے اس سے کہا کہ یہ خالی پنجرہ تم گود میں رکھ کے بیٹھے ہو‘وہ کہنے لگا کہ سر یہ پنجرہ کبھی خالی ہوتا ہے اور کبھی کبھی بھرا ہوا بھی ہوتا ہے وہ کہنے لگا کہ اس میں میرا کبوتر ہوتا ہے جو اس وقت ڈیوٹی پر گیا ہوا ہے‘ اس نے بتایا کہ وہ یہاں کھاد فیکٹری میں خرادکا کام کرتا ہے اور ویلڈنگ کا کام بھی جانتا ہے اور چھوٹا موٹا الیکٹریشن کا کام بھی سمجھتا ہے
 اس نے کہا کہ مجھے ہر روز اوورٹائم لگانا پڑتا ہے اس وجہ سے میں شام کو  پانچ بجے چھٹی کے وقت پھر گھرواپس نہیں جاسکتا اور گھر پر فون ہے نہیں جس کے ذریعے رابطہ کرکے  بتا سکوں کہ لیٹ آؤں گا‘ لہٰذا میں نے اپنا یہ کبوتر پالا ہوا ہے۔ اس کو میں ساتھ لے آتا ہوں جس دن میں نے اوورٹائم لگانا ہوتا ہے اس دن میں اور میرا کبوتر اکٹھے رہتے ہیں اور میری بیوی کو پتہ چل جاتا ہے کہ ہم آج رات گھر نہیں آئیں گے‘وہ مطمئن ہو جاتی ہے‘لیکن جس دن اوورٹائم نہیں لگانا ہوتا تو کبوتر چھوڑ دیتا ہوں وہ پھر پھڑاتا ہوا اڑتا ہے اور سیدھاگھر جاکر میری بیوی کی جھولی میں جا پڑتا ہے اور وہ قاصد کا کام کرتا ہے اور اسے پتہ چل جاتا ہے کہ آج اس کے خاوند نے گھر آنا ہے اور وہ کھانے پینے کا اہتمام کردیتی ہے اور اس نے جو بھی مٹر قیمہ بنانا ہوتا ہے وقت پرتیار کردیتی ہے  اس لئے آج بھی میراکبوتر اپنی ڈیوٹی پر ہے‘وہ کہنے لگا کہ صاحب میں پڑھا لکھا تو ہوں نہیں میری چھوٹی سی عقل ہے وہ میرا کبوتر گھر پہنچ چکا ہوگا۔ خواتین وحضرات پہلے تو مجھے اس پر بڑا تعجب ہوا کہ اس نے یہ بات سوچی کیسے؟وہ پنجرے والا کسی کے پیچھے نہیں گیا‘کسی کا محتاج نہیں‘کسی کی منت سماجت نہیں کی لیکن اس نے اپنی سوچ سے کبوتر کو پڑھایا‘سمجھایا اوراس سے قاصد کاکام لیا‘بڑی دیر کی بات ہے ہم سمن آباد میں رہتے تھے میرا پہلا بچہ جو نہایت ہی پیارا ہوتا ہے وہ میری گود میں تھا۔ وہاں ایک گراؤنڈ ہے جہاں پاس ہی صوفی غلام مصطفیٰ تبسم رہا کرتے تھے‘میں اس گراؤنڈ میں بیٹھا تھااورمالی لوگ کچھ کام کررہے تھے‘ ایک مالی میرے پاس آکر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ بہت پیارا بچہ ہے‘ وہ کہنے لگا کہ جی میرا چھوٹے سے جو بڑا بیٹا ہے وہ بھی تقریباً ایسا ہی ہے۔وہ کہنے لگا کہ میرے آٹھ بچے ہیں جب اس نے آٹھ بچوں کا ذکر کیا تو میں نے کہا میں اپنی محبت آٹھ بچوں میں تقسیم کرنے پر تیارنہیں ہوں‘وہ مسکرایا اور میری طرف چہرہ کرکے کہنے لگا صاحب جی محبت تقسیم نہیں کیا کرتے محبت کوضرب دیا کرتے ہیں وہ بالکل ان پڑھ آدمی تھا اور اس کی جب سے کہی ہوئی بات اب تک میرے دل میں نقش ہے۔