پیوٹن کا ورلڈ 

صدر پیوٹن24   فروری کو یوکرین پر حملہ کرنے سے پہلے یہ اندازہ لگانے میں حق بجانب تھے کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک رو بہ زوال اور منقسم ہیں‘  موجودہ ورلڈ آرڈر ملٹی پولر ہے اور عالمی انتشار کے اس ماحول میں چین اور روس ایک متبادل عالمی نظام کی داغ بیل ڈال سکتے ہیں اگر چہ کہ یوکرین جنگ میں چند اہم محاذوں پر روس کی شکست نے صدر پیوٹن کے اس ورلڈ ویو کی نفی کر دی ہے مگر اسے مکمل طور پر فرسودہ اور بے مقصد نہیں کہا جا سکتا اس جنگ میں دنیا نے اس طرح کھل کر مغربی ممالک کا ساتھ نہیں دیا جس طرح کہ توقع کی جا رہی تھی اس نئی جنگ کے میدان میں اترتے وقت صدر بائیڈن کا خیال تھا کہ چین اوراسکے حامی ممالک کے علاوہ پوری دنیا امریکہ کا ساتھ دے گی مگر گذشتہ ہفتے اوپیک  پلس ممالک کی تنظیم نے یہ اعلان کیا کہ وہ تیل کی پیداوار میں نومبر سے دو سو ملین بیرل یومیہ کمی کر دے گی اس تنظیم میں اگر چہ کہ روس سمیت کل 23 ممالک شامل ہیں مگر صدر بائیڈن نے اس فیصلے کی تمام تر ذمہ داری سعودی عرب پر ڈالتے ہوے کہا ہے کہ واشنگٹن‘ ریاض سے اپنے تعلقات کا جائزہ لے گا بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تیل کی پیداوار میں کمی کا سب زیادہ فائدہ روس کو ہو گا اور اب وہ زیادہ دیر تک یہ جنگ جاری رکھ سکے گا۔امریکہ کے روس مخالف اتحاد میں چین اور انڈیا جیسے دو بڑے ممالک شامل نہیں ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صدر پیوٹن کا یہ اندازہ درست تھا کہ دنیا طاقت کے کئی مراکز میں تقسیم ہو چکی ہے۔

 دوسری طرف مغربی ممالک کا اتحاد ابھی تک یوکرین کو اقتصادی اور عسکری امدادتو مہیا کر رہا ہے مگر اسے جو خطرات ہیں وہ بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں اٹلی میں نئی وزیر اعظم جارجیا میلونی شاید کھل کر یوکرین اور امریکہ کی مخالفت نہ کریں گی مگر مخلوط حکومت میں انکے دو اہم اتحادی صدر پیوٹن کے حامی ہیں اٹلی میں رائے عامہ کا روس کے حق میں ہونا ایک عرصے سے مغربی میڈیا میں زیر بحث ہے جرمنی کو روس کی طرف سے گیس کی سپلائی بند ہونے پر جن مشکلات کا سامنا ہے وہ کسی بھی وقت مغربی اتحاد میں ایک دراڑ بن سکتا ہے۔ فرانس کے صدر ایمینوئل میکرون سات ماہ سے مسلسل صدر پیوٹن کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں سویڈن جیسے سیاسی طور پر معتدل مزاج ملک میں فار رائٹ کی ایک ایسی جماعت اکثریت حاصل کر چکی ہے جو یوکرین جنگ کے خلاف ہے۔ایشیا اور لاطینی امریکہ کے ممالک میں پاپولسٹ لیڈروں کی مقبولیت بھی امریکی ورلڈ آرڈر کے خلاف خطرے کی گھنٹی ہے۔

امریکہ اب تک یوکرین جنگ میں 62 بلین ڈالر لگا چکا ہے مگر یہ جنگ ختم ہوتے ہوے نظر نہیں آ رہی اگر چہ کہ ڈیموکریٹس اور ریپبلیکن نے مل کر یوکرین کو وسائل مہیا کرنے  کے لئے قانون سازی کی ہے مگر امریکہ میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور معیشت کی غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے لوگ اس جنگ کو غیر ضروری سمجھ رہے ہیں۔صدر بائیڈن کی بیالیس فی صد Approval rating  کی ایک وجہ یوکرین جنگ بھی ہے جس میں نیوکلیئر تصادم کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتاامریکہ کے بعد برطانیہ یوکرین جنگ کا سب سے بڑا حمایتی ہے مگر اسکی نئی وزیر اعظم لز ٹرس ابھی سے عدم مقبولیت کا شکار ہیں۔ انکی ناکامی کی اصل وجہ انکی معاشی پالیسی ہے مگر ان سے پہلے بورس جانسن بھی مقبولیت کھو چکے تھے اسلئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یوکرین جنگ کے دو بڑے حامی ممالک کے سربراہ اپنے عوام میں غیر مقبول ہو چکے ہیں اس جنگ کو ابھی سات ماہ گذرے ہیں مگر یورپی ممالک روز مرہ مسائل میں اضافے کی وجہ سے اس سے بیزار آ چکے ہیں۔  صدر پیوٹن نے یہ جنگ شروع کرنے سے پہلے چند حقائق کو نظر انداز کیا تھا وہ انہیں اگر اپنے ورلڈ ویو میں شامل کر لیتے تو شائد یہ مہم جوئی نہ کرتے۔

 انہوں نے روس کو جس بلند درجے کی عسکری طاقت سمجھ رکھا تھا وہ اندازہ میدان جنگ میں غلط ثابت ہو ا پیوٹن نے دشمن کی کمزوریوں کا حساب کتاب تو لگا لیا تھا مگر اپنی کمزوریوں کو انہوں نے نظر انداز کر دیا تھا پہلے انکا خیال تھا کہ وہ چند ہفتوں میں یوکرین کے دارلخلافے Kyiv پر قبضہ کر لیں گے پھر جلد ہی اس محاذ سے پسپا ئی اختیار کرتے ہوے انہوں نے کہا کہ وہ یوکرین کے شمال‘ جنوب اور مشرق کے علاقوں کوروس میں شامل کرنا چاہتے ہیں مگر اب چند روز پہلے انکی افواج کو Donetsk' Luhansk' Kherson اور Kharkiv جیسے اہم علاقوں کے کئی دیہات سے پسپا ہونا پڑا ہے۔صدر پیوٹن کے مغرب مخالف تجزیے میں چین اور انڈیا کی غیر مشروط اودائمی  حمایت بھی شامل تھی مگر اب ان دونوں ممالک نے بھی ا س جنگ کو ختم کرنے کے اشارے دینے شروع کر دئے ہیں اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ صدر پیوٹن کے تمام اندازے تو غلط ثابت نہیں ہوئے مگر انہوں نے اس جنگ میں اپنے ملک کے وقار اور مرتبے کو سخت نقصان پہنچایا ہے اس ناکامی کے باوجود انہوں نے یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ مغرب کا لبرل ورلڈ آرڈر پوری دنیا کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ اسکے جواب میں مغربی دانشور یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ استدلال اگر درست ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ نیا ورلڈ آرڈر کہاں ہے اور اسے کون نافذ کرے گا۔جب تک مغرب مخالف ممالک کی جانب سے اس سوال کا واضح جواب نہیں آتا لگتا ہے کہ دنیا کو لبرل ورلڈ آرڈر پر ہی گزارہ کرنا پڑیگا۔صدر پیوٹن نے اپنے ورلڈ ویو پر عمل کر کے جو قیمت ادا کی ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔