صدر بائیڈن نے تیرہ اکتوبر کو لاس اینجلس میں ڈیموکریٹک پارٹی کی فنڈ ریزنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوے اپنی حکومت کی کارکردگی‘ امریکہ اور دنیا بھر میں جمہوریت کو لاحق خطرات‘ روس یوکرین جنگ میں ایٹمی اسلحے کے استعمال اور چین سے معاشی مسابقت جیسے متنوع موضوعات پر اظہار خیال کیا۔ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہنے والی اس تقریر میں انہوں نے اپنے بچپن‘ حالات زندگی اور سیاسی کیرئر پر بھی بے تکلف گفتگو کی۔ ریپبلیکن پارٹی کی سیاست پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے حاضرین سے پوچھا کہ آپ بتائیں کہ اس کا ایجنڈا کیا ہے اس پر مختلف جوابات سننے کے بعد صدر امریکہ نے کہا کہ انہیں صرف اقتدار چاہئے‘ وہ لوگوں سے ووٹ کی طاقت چھیننا چاہتے ہیں‘ وہ گن انڈسٹری کو زیادہ طاقتور بنانا چاہتے ہیں اور اسقاط حمل پر پابندی لگا کر خواتین کے حقوق ختم کرنا چاہتے ہیں۔ کیلی فورنیا کے دور دراز سے آئے ہوئے ڈیمو کریٹک پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں سے انہوں نے کہا کہ انکی جماعت کو ہاؤس میں صرف دو یا تین مزید سیٹوں کی ضرورت ہے تا کہ وہ اگلے دو سالوں میں اپنے ایجنڈے کی تکمیل کر سکیں اس تقریر کے دوران انہوں نے کہا کہ ” ہم نے اپنی تاریخ میں جو کام بھی کرنے کا ارادہ کیا وہ ہم نے کر دکھایا مگر شرط یہ ہے کہ ہم سب ایسے کام مل جل کر کریں“ خارجہ پالیسی کے حوالے سے انہوں نے زور بیان چین اور روس پر صرف کیا اور کہا کہ یہ دونوں ممالک موجودہ ورلڈ آرڈر کو تبدیل کر کے ایک نیا عالمی نظام لانا چاہتے ہیں اور اس مقصد کیلئے وہ اپنے حمایتی ممالک کا بلاک بنا رہے ہیں اس ذکر کے دوران انہوں نے پاکستان کے بارے میں کہا کہ میرے خیال میں یہ دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے کیونکہ اسکے ایٹمی ہتھیاروں کا نظام منظم نہیں ہے۔ صدر امریکہ کی یہ تلخ نوائی اسلئے بھی حیران کن ہے کہ انکے وزرا ء اورامریکی میڈیا کئی مہینوں سے امریکہ پاکستان تعلقات کے خوشگوار ہونے کی خبریں دے رہے ہیں۔ امریکی کانگرس نے چند روز پہلے ہی 450ملین ڈالر کے پیکج کا اعلان کیا ہے جسکے تحت پاکستان کوF-16 طیاروں کے سپئیر پارٹس مہیا کئے جائیں گے۔جنرل قمر جاوید باجوہ گذشتہ ہفتے واشنگٹن کا دورہ کر کے واپس گئے ہیں سیکرٹری آف ڈیفنس لائیڈ آسٹن نے جنرل باجوہ سے ملاقات کے دوران جنوبی ایشیا میں امن قائم کر نے کیلئے پاکستان کے تعاون کی ستائش کی تھی۔سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن چھ ماہ میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سے تین ملاقاتیں کر چکے ہیں اور خود صدر بائیدن نے ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوے اقوام عالم کی توجہ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی طرف دلائی تھی۔ اس تناظر میں صدر بائیڈن نے اچانک پتھر مار کر ارتعاش کیوں پیدا کر دیا۔اس بیان کے فوراّّ بعد وائٹ ہاؤس اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمانوں نے کہا ہے کہ یہ کوئی پالیسی سٹیٹمنٹ نہ تھی بلکہ فی ا لبدیہہ اور اتفاقی تبصرہ تھا جسکے دونوں ممالک کے تعلقات پر اثر نہیں پڑے گا۔اس وضاحت کو اگر تسلیم بھی کر لیا جائے پھر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ صدر امریکہ کو پاکستان سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ اسلام آباد سے اختلاف کی ایک وجہ اس تقریب سے ایک دن پہلے جنرل اسمبلی کا وہ اجلاس ہو سکتا ہے جسمیں پاکستان نے روس کے خلاف پیش کی گئی ایک قرارداد میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔صدر بائیڈن کو یہ بات اسلئے پسند نہیں کہ وہ یوکرین جنگ کے معاملے پر دوستوں کو اپنے ساتھ کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں۔وہ کئی مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ چین اور روس امریکہ مخالف بلاک بنا رہے ہیں ان خدشات کا اظہار امریکہ کی نیشنل سکیورٹی پالیسی کی اس دستاویز میں بھی کیا گیا ہے جو بارہ اکتوبر کو پیش کی گئی ہے اڑتالیس صفحات پر مشتمل اس تزویراتی دستاویز میں لکھا ہے کہ The United States will not allow Russia or any other power to achieve its objective through using or threatning to use nuclear weapons یعنی امریکہ روس یا کسی بھی دوسری طاقت کو یہ اجازت نہیں دے گا کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال یا اسکی دھمکی دیکر اپنے مقا صد حاصل کرنے کوشش کرے۔امریکہ میں آجکل ایک ایٹمی جنگ کے امکانات پر اسلئے بحث مباحثہ ہو رہا ہے کہ صدر پیوٹن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ امریکہ ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر ایک مثال قائم کر چکا ہے یہ کہہ کر انہوں نے اس امکان کے دروازے کھول دیئے ہیں کہ انہیں اگر یوکرین جنگ میں دیوار سے لگایا گیا تو وہ ایٹمی آپشن استعمال کر یں گے اسکے علاوہ بائیس اکتوبر کو Cuban Missile Crisis کو بھی پورے باسٹھ برس ہو جائیں گے اس حوالے سے جان ایف کینیڈی اور نکیتا خروشیف کے تاریخی مذاکرات بھی آجکل میڈیا میں زیر بحث ہیں ان حقائق کی روشنی میں امریکی صدر کے پاکستان کے بارے میں دیئے گئے بیان کا وسیع تر تناظر امریکہ میں آجکل ایٹمی جنگ پر ہونیوالا بحث مباحثہ ہے۔صدر بائیڈن کی پاکستان کے بارے میں اس کبیدہ خاطری کے شائد مستقبل قریب میں کوئی اثرات سامنے نہ آئیں مگر اوپر بیان کردہ تزویراتی دستاویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ سرد جنگ کے دور کی طرح دنیا کو دوستوں اور دشمنوں کے دو واضح دھڑوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
مشرق وسطیٰ‘ یحییٰ سنوار کے بعد
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
ڈونلڈ ٹرمپ‘ ناکامی سے کامیابی تک
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
کیا ٹرمپ کا امریکہ ایک مختلف ملک ہو گا
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی