برطانیہ کا نیا وزیر اعظم

چند ماہ پہلے تک برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کو دعویٰ تھا کہ وہ مغربی دنیا کی کامیاب ترین سیاسی جماعت ہے وہ اس دعوے میں حق بجانب اس لئے تھی کہ وہ دو سو سال سے برطانوی سیاست کا جزو لاینفک تھی اور اس نے Benjamen Desraeli  ونسٹن چرچل اور مارگریٹ تھیچر جیسے کامیاب اور نامور وزراء اعظم دئیے تھے برطانوی عوام اس جماعت کو اس کے محتاط طرز عمل اور ذمہ دار معاشی پالیسیوں کی وجہ سے پسند کرتے تھے مگر اب ایسا نہیں ہے اس کے عروج کا زمانہ ختم ہو چکا اب اسے انتشار کی علامت سمجھا جا تا ہے اس کے زوال کی بڑی وجہ اس کے ووٹروں کا یہ فیصلہ تھا کہ برطانیہ کو یورپی یونین سے الگ کر دیا جائے‘ اس فیصلے کے بعدبرطانیہ نہ صرف معاشی طور پر کمزور ہوا بلکہ حکمران ٹوری جماعت بھی زوال پذیر ہو گئی تئیس جون2016ء کو بریگزٹ یعنی یورپی یونین سے نکلنے کار یفرنڈم ہوا  جسے ا س وقت کی حکمران ٹوری پارٹی نے صرف باون فیصد ووٹ لیکر جیتا اس سے برطانوی عوام کے دو متحارب دھڑوں میں تقسیم ہونے کی حقیقت سامنے آئی اس وقت سے آج تک پچھلی صدی کی عالمی طاقت ایک ہیجان خیز دور سے گذر رہی ہے۔

 بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اکتیس جنوری 2020ء کو برطانیہ با ضابطہ طور پر یورپی یونین سے الگ ہو گیا گذشتہ چھ برسوں میں ٹوری پارٹی نے چار وزرائے اعظم بدلے ہیں‘ ڈیوڈ کیمرون نے یورپی یونین سے الگ ہونے کی مخالفت کی تھی‘ریفرنڈم میں شکست کے بعد انہوں نے تیرہ جولائی 2016ء کو  استعفیٰ دے دیا ان کے بعد Theresa May وزیر اعظم بنیں وہ بھی معاشی انحطاط پر قابو نہ پاسکنے اور یورپی یونین کے ساتھ علیحدگی کے معاملات اپنی جماعت کی خواہشات کے مطابق طے نہ کر سکنے کی وجہ سے چوبیس جولائی  2019ء کو سبکدوش ہو گئیں ان کے بعد بورس جانسن جو کہ ایک مقبول عوامی لیڈر تھے نے اقتدار سنبھالا‘وہ بریگزٹ کے بعد تیسرے وزیر اعظم تھے‘ٹوری پارٹی ٹیکس کم کرنے اور اخراجات میں کمی کرنے کے ایجنڈے پر عملدرآمد کرتی ہے اسے Trickle Down معاشی پالیسی کہا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ طبقہ امراء اور کاروباری کمپنیوں کو اگر ٹیکس میں چھوٹ دی جائیگی تو وہ اس بچت کو کاروبار میں لگا کر ملازمتوں کے مواقع پیدا کریں گے 1980ء کی دہائی میں امریکہ میں رونلڈ ریگن اور برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر کامیاب اور قد آور قدامت پسند لیڈروں کے طور پر سامنے آئے‘ مغربی ممالک کی لبرل جماعتیں ہمیشہ سے Trickle Down پالیسی کی مخالفت کرتی رہی ہیں۔

 ان کا کہنا ہے کہ سرمایہ کبھی ٹریکل ڈاؤن نہیں ہوتا یہ ایک مرتبہ کسی کے ہاتھ میں چلا جائے تو پھر واپس نہیں آتا‘اسی لئے امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی اور برطانیہ میں لبرل جماعت دولتمندوں پر بھاری بھرکم ٹیکس لگا کر ریونیو اکٹھا کرتی ہیں اور اسے زیادہ تر فلاحی کاموں میں استعمال کرتی ہیں‘ بورس جانسن مقبول ہونے کے باوجود اس لئے کامیاب نہ ہوسکے کہ ایک تو کورونا وائرس نے عالمی معیشت کو سخت نقصان پہنچایا اور دوسرا رہی سہی کسر یوکرین جنگ نے پوری کر دی‘ ان دو معاشی بحرانوں نے عالمی معیشت کو کساد بازاری کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے اس وقت کیا ترقی یافتہ اور کیا ترقی پذیر ہر ملک یہی کوشش کر رہا ہے کہ بجٹ کو خسارے سے بچایا جائے‘ بڑھتی ہوئی تیل‘ گیس اور بجلی کی قیمتوں پر قابو پا کر عوام کے غم و غصے سے بچا جائے اور اس کے ساتھ ہی قرضوں کی بروقت ادائیگی بھی کی جائے‘بورس جانسن ان حالات کا مقابلہ کر رہے تھے اور عوام کو اپنے مسائل سمجھانے میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوگئے تھے مگر ان کا لاابالی پن انہیں لے ڈوبا ایک طرف انہوں نے کورونا وائرس کے دنوں میں ملک بھر میں لاک داؤن لگایا ہوا تھا اور دوسری طرف وہ ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ میں دھڑا دھڑ پارٹیاں کر رہے تھے۔

طرب و نشاط کی ان محفلوں کی خبریں اور ویڈیوز جب سوشل میڈیا پر منڈلانے لگیں تو عوام الناس نے سخت برہمی کا اظہار کیا وزیر اعظم نے بڑی صفائیاں پیش کیں کہ کام کاج کے دوران سٹاف اگر دو چار ڈرنکس لے لے تو اسے پارٹی تو نہیں کہا جا سکتا مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا‘عوام اور ٹوری پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ سخت غصے میں تھے اس دوران بورس جانسن کے Chancellor of the Exchequer یعنی وزیر خزانہ رشی سونک نے استعفیٰ دے دیا اس کے بعد چند دیگر وزراء نے بھی ان کی تقلید کی اور پھر سات جولائی کو بورس جانسن نے اپنی حکومت کی بساط لپیٹنے کا اعلان کر دیااس کے بعد لز ٹرس اور رشی سونک میں مقابلہ ہواان کی ہار جیت کا فیصلہ ٹوری پارٹی کو باقاعدگی سے چندہ دینے والے ایک لاکھ بہتر ہزار ممبروں نے کرنا تھا‘لز ٹرس نے ووٹروں سے وعدہ کیا کہ وہ ٹیکس میں چھوٹ بھی دیں گی اور عوام کو گیس اور بجلی کی قیمتوں میں ریلیف بھی ملے گا‘ رشی سونک جنہوں نے برطانیہ کی آکسفورڈ اور امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی سے معاشیات اور فلسفے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی‘ نے لز ٹرس کی پالیسیوں کو Fairy Tale یعنی پریوں کی کہانی کا عنوان دیا اور کہا کہ افراط زر کے اس دور میں ٹیکسوں میں تو کسی حد تک چھوٹ دی جاسکتی ہے مگر حکومت مشکل سے اپنے اخراجات پورے کرے گی اس لئے عوام کو جلد ریلیف نہیں دیا جا سکتا۔

 ٹوری پارٹی کے ممبروں نے ان کی پالیسی کو مسترد کر دیا اور یوں لز ٹرس وزارت عظمیٰ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں مگر ان کی معاشی پالیسی کو برطانیہ اور عالمی Financial Markets نے فوراً مسترد کر دیا‘ سرمایہ کاروں نے پوچھنا شروع کر دیا کہ عوام کو گیس اور بجلی میں دیئے جانے والے ریلیف کے سو بلین پاؤنڈ کی رقم کہاں سے آئے گی اور ٹیکس میں اتنی بھاری بھرکم کٹوتی کا خسارہ کیسے پورا کیا جائیگا اس ٹریکل ڈاؤن پالیسی نے منڈی میں ہیجان برپا کر دیا پہلے ہی سے سہمے ہوئے سرمایہ دار مزید نروس ہو گئے پاؤنڈ کی قیمت تیزی سے گرنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے لز ٹرس چوالیس دن حکومت کر نے کے بعد برطانیہ کی تاریخ میں کم ترین مدت تک وزیر اعظم رہنے کا ناقابل رشک اعزاز لے کر رخصت ہو گئیں‘  اس کے بعد ٹوری پارٹی کے پاس رشی سونک کے علاوہ دوسرا کوئی ایسا امیدوار نہ تھا جو برطانیہ کی ڈولتی معیشت کو سنبھالا دے سکتا‘ بیالیس سالہ بھارتی نژاد رشی سونک ایک معیشت دان ہے‘ اس نے سچ بول کر الیکشن ہار دیا تھا مگر وقت نے اسے صحیح ثابت کر دیا اور یوں برطانیہ کی وزارت عظمیٰ پہلی مرتبہ گندمی رنگ کے ایک ایسے شخص کی جھولی میں آ گری جس کے ملک پر برطانوی سلطنت نے ڈیڑھ سو برس سے زیادہ حکومت کی تھی۔