عالمی سیاست کے تناظر میں اکتوبر کا مہینہ اسلئے اہم تھا کہ اس میں صدر بائیڈن نے اپنی قومی سلامتی کی پالیسی کا اعلان کیا اور صدر شی جن پنگ نے تیسری مدت صدارت کی ابتدائی تقریر میں چین کو درپیش خطرات اور اپنی حکمت عملی کا ذکر کیا۔ امریکہ میں یہ روایت ہے کہ ہر صدر اپنی صدارت کے پہلے سال میں قومی سلامتی کی دستاویز پیش کرتا ہے۔صدر بائیڈن نے اس کام میں تاخیر کی وجہ یوکرین جنگ بتائی ہے امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ڈاکٹرئن کی تشہیر کو اسلئے ضروری سمجھا جاتا ہے کہ یہ ا مریکہ کو درپیش خطرات اور اسکی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کے بارے میں اسکے اتحادیوں کو آگاہ کرتی ہے اور اسکے ذریعے حریف ممالک کو انتباہ کیا جاتا ہے کہ امریکہ تمام چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے۔ بارہ اکتوبر کو صدر بائیڈن نے کہا کہ امریکہ کو مستقبل قریب میں روس کے توسیع پسندانہ عزئم کا مقابلہ کرنا پڑیگا اور اسکے ساتھ ہی ایک طویل عرصے تک چین کے ساتھ معاشی‘ عسکری اور ٹیکنو لاجیکل میدانوں میں مسابقت کرنا ہوگی۔امریکہ کی نئی قومی سلامتی کی دستاویز جو اڑتالیس صفحات پر مشتمل ہے میں لکھا ہے کہ امریکہ کو چین کی جارحانہ خارجہ پالیسی کے مقابلے کیلئے تیار رہنا ہو گا۔امریکہ کے بیشتر ریاستی اداروں کے تعاون سے تیار کی گئی اس دستاویز کا عنوان National Security Strategy ہے اس میں لکھا ہے کہ امریکہ کیلئے چین اور روس دو مختلف قسم کے خطرات کا باعث ہیں۔صدر بائیڈن نے اسکی وضاحت کرتے ہوے کہا کہ روس ایک ایسی زوال پذیر طاقت ہے جو یوکرین جنگ میں پسپائی اختیار کر نے کے بعد امریکہ کیلئے کسی بھی زمینی جنگ میں خطرے کا باعث نہیں رہی مگر اسکے ایٹمی ہتھیار تمام دنیا کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ ہیں۔صدر بائیڈن نے کہا کہ چین ایک ایسا ملک ہے جو انٹرنیشنل آرڈر کو تبدیل کرنے کی نیت اور اہلیت رکھتا ہے اور اسکے پاس یہ مقاصد حاصل کرنے کیلئے معاشی‘ عسکری اور سفا رتی وسائل بھی موجود د ہیں۔ صدر بائیڈن کی حکمت عملی کے مطابق امریکہ اسی صورت میں چین کا مقابلہ کر سکتا ہے کہ اسے اپنی جمہوری روایات پر مکمل یقین ہو اور امریکی عوام متحد ہو کراپنے نظام حکومت کے دفاع کا عزم رکھتے ہوں اس دستاویز کے مطابق چین ایک یسی اُبھرتی ہوئی طاقت ہے جو اقوام عالم کیساتھ اپنے معاشی روابط بڑھا رہا ہے اور وہ عالمی تجارت کے نئے قوانین مرتب کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔ صدر بائیڈن نے اپنی قومی سلامتی کی ڈاکٹرائن کے بارے میں کہا کہ امریکہ اور چین کی مسابقت دراصل دو مختلف نظام ہائے زندگی کی کشمکش کا معاملہ ہے اور مغرب کو اپنے نظام حکومت کے دفاع کیلئے نہ صرف متحد رہناہو گا بلکہ اپنے مد مقابل سے معاشی روابط بھی کم کرنا ہوں گے اس دستاویز کے اس پہلو کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یورپی ممالک روس کیساتھ تو طوعاّّ و کرہاّّ اپنے معاشی روابط یوکرین جنگ کی وجہ سے کم کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں مگر وہ امریکہ کے کہنے پر چین کیساتھ تعلقات خراب کرنے پر آمادہ نہ ہوں گے۔ اسکا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جرمنی جو کہ یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہے کے چانسلر اولاف شلز کئی مرتبہ یوکرین جنگ پر اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔روس نے گیس کی سپلائی بند کر کے جرمن عوام کی مشکلات میں جس قدر اضافہ کیا ہے اسکا تذکرہ ر عالمی ذرائع ابلاغ میں تواتر کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اب لگتا ہے کہ اولاف شلز چین سے تعلقات کے بارے میں امریکہ کے مشوروں پر عمل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ جرمنی کے چانسلر جمعرات کو اپنے ملک کی کاروباری کمپنیوں کے چیف ایگزیکیٹوز کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ بیجنگ گئے تھے اسکی وجہ یہ ہے کہ جرمنی کے ایک ملین سے زیادہ لوگوں کے روزگار کا انحصار چین کیساتھ تجارت پر ہے۔یورپ نے چین میں جتنی بھی سرمایہ کر رکھی ہے اسمیں سے نصف جرمنی کی ہے اور جرمنی کی مینوفیکچرنگ بزنس کا چین کی سپلائی chain پر انحصار اتنا زیادہ ہے کہ اسے ختم کرنے سے جرمنی کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ا ولاف شلز کا دورہ چین ظاہر کرتا ہے کہ وہ چین کیساتھ جرمنی کے معاشی روابط کو توسیع دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب چین کے صدر شی جن پنگ نے چند روز قبل تیسری مدت صدارت حاصل کی ہے۔ اس موقع پر کمیونسٹ پارٹی کی کانگرس سے خطاب کرتے ہو ئے صدر شی جن پنگ نے کہا کہ چین ایک نا موافق عالمی ماحول میں اپنی ترقی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے اس دوران ایک بھرپور استعارے کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر بارش کے آثار ہوں تو اپنے گھر کو طوفان اور سیلاب کے مقابلے کیلئے مضبوط بنا دینا چاہئے۔ صدر شی جن پنگ کو امریکہ کی طرف سے لاحق خطرات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے چین کی چوالیس سال پرانی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ دیتے ہوے کہا کہ موجودہ صورتحال میں چین کو اپنے دفاع پر زیادہ توجہ دینا ہو گی۔ صدر ڈنگ زیاؤ پنگ نے 1978 میں معاشی ترقی کو اولین ترجیح قرار دیا تھا اور اسکے بعد سے آج تک چین اسی پالیسی پر کاربند رہا مگر اب صدر شی جن پنگ نے اس پالیسی کو تبدیل کرتے ہوے کہا ہے کہ چین کی دفاعی صلاحیت ہی اسکی معاشی ترقی کی ضامن ہے۔امریکہ اور چین کے سربراہوں نے اگر چہ کہ کھل کر ایک دوسرے کو اپنے ملک کیلئے ایک بڑا خطرہ قرار دیا ہے مگر دونوں ایک بڑے تصادم کے نقصانات سے بھی آگاہ ہیں۔ یورپی ممالک کی ایک بڑی تعداد جن میں جرمنی‘ فرانس‘ اٹلی اور سپین شامل ہیں روس کے بعد چین کیساتھ بھی اپنے معاشی روابط منقطع کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ لگتا ہے کہ صدر بائیڈن کو اپنی قومی سلامتی کی پالیسی پر عملدرآمدکرنے میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا دنیا نہ صرف دو عالمی طاقتوں کی محاذ آرائی پر تحفظات رکھتی ہے بلکہ بیسیوں ممالک امریکہ اور چین میں سے کسی بھی کیمپ کا حصہ نہ بننے کا اعلان کر چکے ہیں۔
اشتہار
مقبول خبریں
مشرق وسطیٰ‘ یحییٰ سنوار کے بعد
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
ڈونلڈ ٹرمپ‘ ناکامی سے کامیابی تک
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
کیا ٹرمپ کا امریکہ ایک مختلف ملک ہو گا
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی