ری پبلکن پارٹی کا انتہا پسنددھڑا طویل عرصے سے اپنی جماعت پر تسلط جمانے کی کوشش کر رہا ہے گذشتہ دو عشروں میں اسے پہلی فتح جارج ڈبلیو بش کی صدارت اور دوسری فتح ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کی صورت میں حاصل ہوئی تھی اس جماعت کے فار رائٹ کنزرویٹو گروپ جس میں Evangelicals کی تعداد زیادہ ہے نے جارج بش کو عراق پر حملے کیلئے آمادہ کیا تھا۔ عراق میں امریکی فوجیوں کو اپنے ڈھائے ہوئے مظالم کے دوران احساس ہوا کہ انہیں صدام حسین کے مہلک ہتھیار تو ملے نہیں پھر وہ کیوں اتنا خون بہا رہے ہیں انکی یہی سوچ بعد میں امریکی عوام کے اس تاثر میں ڈھل گئی کہ جارج بش کے اسرائیل نواز Evangelicalsنے امریکہ کو اس جنگ میں پھنسا یا تھا۔اس تاثر کے باوجود جارج بش دوسری مدت صدارت اسلئے جیت گیا کہ امریکی عوام جنگ کے دوران اپنی فوج کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں اور اپنے کمانڈر ان چیف کو دستبردار کر کے میدان جنگ میں لڑتی ہوئی فوج کے حوصلوں کو پست نہیں کرتے۔جارج بش کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت بھی ریپبلیکن پارٹی کے انتہا پسند طبقے کے عروج کا زمانہ تھا اسوقت افغان جنگ کو سولہ برس بیت چکے تھے امریکی عوام اس جنگ سے سخت بیزار تھے اسلئے اسے اختتام کی طرف بڑھانے میں صدر ٹرمپ کو کوئی دشواری درپیش نہ تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ایسی تشدد پسند ملیشیا تنظیموں کو کافی تقویت ملی جو طاقت کے بل بوتے پر اپنا وطن واپس لینے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ ٹرمپ نے سخت امیگریشن قوانین نافذ کر کے انکی خوشنودی حاصل کی اور اسکے ساتھ ہی انہیں Make America Great Again جیسا نعرہ بھی دیا جو آٹھ نومبر کے وسط مدتی انتخابات میں بھی گھن گھرج کے ساتھ استعمال ہو رہا ہے۔ سفید فام قوم پرستوں کی طاقت میں اضافے کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کاروباری طبقے کو ایک کھرب ڈالر کی ٹیکس بریک دیکر ریپبلیکن پارٹی کے روایتی ایجنڈے پر بھی عملدر آمد کیا۔
صدر بائیڈن نے 2020کے الیکشن میں بمشکل تمام ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دی تھی ان دونوں کے انتخابی معرکے کا فیصلہ پانچ Battle Ground States میں ہوا تھا ان میں پنسلوینیا‘ مشی گن‘ اریزونا‘ جارجیا اور اوہایو شامل تھیں ان تمام ریاستوں میں صدر بائیڈن کی اکثریت دس سے بارہ فیصد تھی اب انکی کمزور کارکردگی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے یہ بارہ فیصد ووٹرز ریپبلیکن پارٹی میں واپس جا چکے ہیں اسکے علاوہ پورے ملک میں انتخابی ماحول ڈیموکریٹک پارٹی کے حق میں نظر نہیں آ رہا۔ عوام کے تیور بدلے ہوے نظر آ رہے ہیں گذشتہ دو برسوں میں لاطینی امریکہ سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ غیر قانونی طریقے سے امریکہ میں داخل ہوئے ہیں۔ اسنے قوم پرستوں کے غصے میں اضافہ کرنے کے علاوہ بڑے شہروں سے دور رہنے والے لوگوں کو بھی ناراض کیا ہے اسکے علاوہ رہی سہی کسر ملک بھر میں بڑھتے ہوے جرائم نے پوری کر دی ہے۔ نیویارک جو کہ ہمیشہ سے ڈیموکرٹیک پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے میں ریپبلیکن پارٹی کا امیدوار Lee Zeldon ڈیمو کریٹک پارٹی کی موجودہ گورنرKathy Hochulکو شکست سے دوچار کر سکتا ہے۔اگر چہ کہ گذشتہ سو برسوں میں وائٹ ہاؤس میں براجمان جماعت اکثر مڈ ٹرم الیکشن میں شکست کھاتی رہی ہے مگر اس مرتبہ ڈیموکریٹس کی جیت کے امکانات اسلئے زیادہ تھے کہ سپریم کورٹ نے اسقاط حمل پر پابندی کے قانون کو منظور کرکے خواتین کی ایک بڑی تعداد کو ریپبلیکن پارٹی سے بد ظن کر دیا تھا دو ماہ پہلے تک غالب امکان یہی تھا کہ ڈیموکریٹک پارٹی اگر ہاؤس میں اپنی اکثریت برقرار نہ رکھ سکی تو سینٹ میں اپنی خفیف برتری کا تحفظ آسانی سے کر لیگی مگر گذشتہ دو ہفتوں میں جتنے بھی Opinion Polls ہوئے ہیں ان میں ریپبلیکن پارٹی واضح اکثریت سے جیت رہی ہے اسوقت ایوان نمائندگان کی 435 اور سینٹ کی بتیس نشستوں پر ووٹنگ ہو رہی ہے۔ انتخابی نتائج آ رہے ہیں مگر یہ فیصلہ ابھی نہیں ہوا کہ ڈیموکریٹس سینٹ میں ایک ووٹ کی اکثریت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں ماہرین کے مطابق ہاؤس میں ریپبلیکن پارٹی کی فتح نوشتہ دیوار ہے۔ ڈیموکریٹس اگر دونوں ایوان کھو دیتے ہیں تو اگلے دو سال انکے لئے نہایت ناساز گار ہوں گے صدر بائیڈن نہ صرف Lame Duck ہو جائیں گے بلکہ انہیں مؤاخذے کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ ریپبلیکن پارٹی کی یہ فتح ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت میں مزیداضافے کا باعث بنے گی اور انکے دوسری مدت صدارت حاصل کرنے کے امکانات میں اضافہ ہو جائیگا۔مڈ ٹرم الیکشن میں کامیابی کے فوراّّ بعد ڈونلڈ ٹرمپ 2024 میں اپنے صدارتی امیدوار ہونے کا اعلان بھی کر دیں گے امریکہ میں اس سرخ لہر کے پھیلاؤکو دیکھتے ہوے نیو یارک ٹائمز کے کالم نگار پال کروگ مین نے آٹھ نومبرکی اشاعت میں لکھا ہے America as we know it, is not yet lost but it is on the edge. یعنی وہ امریکہ جسے ہم جانتے ہیں ابھی گم نہیں ہوا مگر یہ گمشدگی کے دہانے تک پہنچ گیا ہے۔