کیلیفورنیا: ایلون مسک نے ٹوئٹر اسٹاف سے اپنی پہلی میٹنگ میں خطاب کرتے ہوئے 12 گھنٹے کی شفٹ کرنے اور سہولیات محدود کرنے کے متعلق متعدد انتباہ جاری کر دیے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹوئٹر کے نئے مالک نے اس سے قبل اسٹاف کو ایک ای میل میں گھر سے کام کرنے کی پالیسی کے ختم کر دیے جانے کے متعلق آگاہ کیا تھا۔
ایلون مسک کا اس ای میل میں کہنا تھا کہ تمام ملازمین کو ہر ہفتے کم از کم 40 گھنٹوں کے لیے آفس میں ہونا لازمی ہوگا۔ سوائے ان لوگوں کے جو آفس آنے کے قابل نہ ہوں۔
رپورٹس کے مطابق ایلون مسک کی جانب سے تازہ ترین بیان میں کیا جانے والا کم سے کم تقاضہ دُگنے سے زیادہ ہے۔ نئے متنازع 8 ڈالر تصدیقی فیچر پر کام کرتے ہوئے کچھ ٹوئٹر منیجرز نے اسٹاف کو ہفتے میں 84 گھنٹے یا ہفتے کے ساتوں دن 12 گھنٹے کی شفٹ کرنے کے لیے کہا۔
ایلون مسک نے واضح کیا کہ اب کمپنی میں مفت کھانے جیسی کچھ ہی سہولیات میسر ہوں گی۔ اگر ٹوئٹر نے پیسے بنانا شروع نہیں کیے تو کمپنی دوالیہ ہو سکتی ہے۔
امریکا کے قانون کے مطابق ہفتے میں 40 گھنٹے سے زیادہ کام کرائے جانے کی صورت میں اوور ٹائم کی مد میں 50 فی صد سے زیادہ کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔
ایلون مسک نے اپنے خطاب میں ملازمین کو جارحانہ انداز میں کام کرنے کا بھی کہا۔
انہوں نے ٹیسلا اور اسپیس ایکس کی انتظامیہ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ غیر معمولی افراد کی چھوٹی تعداد انتہائی پُر عزم ہوسکتی ہے اور معتدل نوعیت کا عزم رکھنے والے بڑی تعداد میں موجود افراد سے بہتر کام کرسکتی ہے۔
اسپیس ایکس ملازمین ماضی میں ہر ہفتے 60 گھنٹے کام کر چکے ہیں۔ ایلون مسک خود بھی فیکٹری کی زمین پر سوئے ہیں لیکن کمپنی پر حفاظتی خلاف ورزیاں کرنے کی وجہ سے جرمانہ بھی عائد کیا جا چکا ہے۔