بھینس کے آگے بین بجانا

بھینس کے آگے بینی بجانے کے محاورے پر اگر اس وقت عمل کرنے کی کوئی مثال ہے تو وہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے بھارت سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرنے کی اپیل کی ہے  اور اذیت اور تشدد کنونشن کی توثیق کرنے کی بھی اپیل کی۔اقوام متحدہ میں  گزشتہ روز بھارت  میں انسانی حقوق کی صورت حال پر بحث ہوئی۔ دیکھتے ہیں کہ اس  بین بجانے  کے اثرات بھینس کے رویے پر کیا مرتب ہوتے ہیں کیونکہ جن ممالک نے بحث میں حصہ لیا ہے  وہ بھینس کو چارہ پانی پیش کرنے میں بھی پیش پیش ہیں جبکہ اجلاس کے شرکاء نے  بھارت میں لاگو یو اے پی اے قانون کے غلط استعمال پر تنقید کی ہے۔بحث کے دوران بھینس یعنی بھارت سے اپیل کی گئی کہ وہ اذیت کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کنونشن کی توثیق کرے۔یہ مطالبہ انہوں نے اس ملک سے کیا ہے جو اسرائیل سے انسٹرکٹر بلا کر ان سے کشمیریوں کو نت نئی اذیتیں دینے کے طریقے سیکھ رہا ہے۔ گزشتہ روز جنیوا میں ہونے والی یہ بحث اس جائزہ میٹنگ کا حصہ تھی جس سے اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک کو ہر چار برس میں ایک مرتبہ گزرنا پڑتا ہے۔اجلاس کے دوران کینیڈا نے بھارت سے اپیل کی کہ اقلیتوں پر تشدد کے تمام کیسز کی تفتیش کرائے اور مذہبی تشدد کے معاملات کی جانچ کرتے ہوئے "مسلمانوں سمیت" تمام فرقوں کی مذہبی آزادی کے حقوق کی حفاظت کرے۔برطانوی سفیر سائمن مینلے نے بھارت سے اپیل کی، اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ بچہ مزدوری، بردہ فروشی اور  جبری مزدوری کے خلاف موجودہ قوانین پر پوری طرح عمل درآمد ہو۔، انہوں نے یہ بات اس لئے کی کہ اس وقت بھارت میں جبری مزدوری اور نچلی ذاتوں سے غلاموں جیسا برتاؤ عام ہے۔چین نے بھارت کو انسانی سمگلنگ روکنے کے لیے موثر طریقے اپنانے اور صنفی مساوات کو یقینی بنانے کی نصیحت کی۔بھینس کے آگے بین بجانے والوں یعنی بھارت کو نصیحت کرنے والوں میں نیپال بھی شامل تھا جس نے بھارت کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اسے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تفریق اور تشدد پر قابو پانے کے لیے اپنی کوششیں مستحکم کرنی چاہئیں۔ بھوٹان نے اپنا حصہ ڈالتے ہوئے کہا کہ بھارت کو بچوں اور خواتین کے خلاف جرائم کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جب کہ جرمنی نے کمزور طبقات کے حقوق کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا۔سوئٹرزلینڈ نے بھارت میں انٹرنیٹ پر پابندی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اسے یہ یقینی بنانا چاہئے کہ ہر ایک کے پاس سوشل نیٹ ورک تک رسائی ہو اور انٹرنیٹ کو بند کرنے یا اس کی رفتار کو سست کرنے کی کاروائیاں نہ ہوں۔ان تمام مذکورہ بالا مطالبات اور اپیلوں کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا بعید نہیں کہ ان کے بعد بھارت میں انسانی حقوق کی پائمالی کاسلسلہ مزید تیز ہوگا کیونکہ ایک طرف اگر انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے اجلاسوں میں بھارت سے نرم سفارتی الفاظ میں انسانی حقوق کے عالمی قواعد پر عمل درآمد کی اپیلیں کی جاتی ہیں تو دوسری جانب انہی ممالک کی طرف سے بھارت کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں کو فروغ بھی دیا جا رہا ہے اور ظاہر ہے کہ الفاظ سے زیادہ عملی اقدام کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔