گزشتہ چند برسوں سے امریکہ کے علاوہ کئی دیگر ممالک کو بھی ایک ہیجان نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ان ممالک میں دائیں یا بائیں بازو کا پاپولزم عروج پر ہے اور ریاستی اداروں پر لوگوں کا اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے مریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک قد آور پاپولسٹ لیڈر ہیں انہوں نے 168 برس پرانی ریپبلکن پارٹی کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا ہے سابقہ صدرنے اس جماعت کے کثیرالقومی اور کاروباری کردار کو مجروح کر کے اسے ایک نئے روپ میں ڈھال دیا ہے بعض امریکی تجزیہ کاروں کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے تعصب اور غیر ذمہ داری پر مبنی ایسی ہیجان خیز سیاست کی آبیاری کی ہے جس نے حکومتی نظام کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ممتاز کالم نگار دیوڈ بروکس نے لکھا ہے Trump ushered in an age of performance politicsیعنی ٹرمپ نے کار گزاری دکھانیوالے سیا سی دور کو پروان چڑھایا ہے اسکی وضاحت کرتے ہوے بروکس نے لکھا ہے کہ یہ ایک ایسا دور ہے جس میں لیڈر اپنی زیادہ تر توانائیاں لوگوں کی توجہ حاصل کرنے پر صرف کرتا ہے اور اسکے پاس عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے وقت نہیں ہوتا کالم نگار کی رائے میں صدر بائیڈن نے پاپولزم کو مسترد کرتے ہوے روایتی سیاست میں چند ترقی پسند نظریات شامل کر کے ٹھہرے ہوئے پانی میں ارتعاش پیدا کرنے کی کوشش کی۔ کل تک میڈیا ماہرین کا یہی خیال تھا کہ صدر بائیڈن کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی مگر اب وسط مدتی انتخابات کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی بات سمجھانے میں کامیاب رہے ہیں۔ آٹھ نومبر سے پہلے انتخابی مہم کے دوران صدر بائیڈن کے مشیر انہیں مشورہ دیتے تھے کہ وہ مہنگائی اور معاشی مسائل پر لوگوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کریں مگر وہ یہ کہتے تھے کہ امریکی جمہوریت سخت خطرے میں ہے اور لوگوں کو اپنے ملک کو بچانے کیلئے پولنگ بوتھ پر جانا ہو گا۔ صدر بائیڈن جانتے تھے کہ لوگ کبھی بہتر مستقبل کی
امید میں اور کبھی مخالفین سے خوفزدہ ہو کر ووٹ ڈالنے جاتے ہیں۔امریکی پنڈت اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈیمو کریٹک پارٹی کو بہا لے جانیوالی سرخ لہر اگر نہیں آئی تو اسکی وجہ یہ تھی کہ لوگ خوفزدہ تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امیدوار اگر جیت گئے تو انہوں نے پھر سب کچھ تہہ و بالا کر دینا ہے۔اسی خوف کے زیر اثر ڈیمو کریٹک پارٹی کے ووٹر ایک بڑی تعداد میں اپنا ملک بچانے کیلئے نکلے اور انہوں نے سرخ سونامی کو کنارے تک نہ آنے دیا۔اس بات پر سب تجزیہ نگار الیکشن سے پہلے ہی متفق تھے کہ جس پارٹی کا ٹرن آؤٹ زیادہ ہوگا وہی جیتے گی وسط مدتی انتخابات کی روایت کے مطابق صدر کی جماعت یہ الیکشن بری طرح ہارتی ہے۔ تجزیہ نگار بہت پہلے سے کہہ رہے تھے کہ گذشتہ سو برس میں صرف تین مرتبہ صدر کی جماعت مڈ ٹرم الیکشن جیتی ہے۔یہ الیکشن ہمیشہ صدر کی کار گذاری پر ریفرنڈم ہوتا ہے مگر اب یہ کہا جا رہاہے کہ یہ الیکشن سابقہ صدر کی پرفارمنس پر ریفرنڈم تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ کے MAGA امیدواروں کی اکثریت شکست کھا چکی ہے MAGA ڈونلڈ ٹرمپ کا مشہور نعرہ ہے اور اسکا مطلب Make America Great Againہے رائیٹر نیوز ایجنسی کے ایک حالیہ Opinion Poll کے مطابق 58فیصد لوگوں نے کہا ہے کہ MAGA Movement امریکہ کی جمہوریت کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ ڈیوڈ بروکس نے گیارہ نومبر کے کالم میں لکھا ہے کہ ووٹروں نے دونوں جماعتوں کے ایسے عملیت
پسند امیدواروں کو جتوایا ہے جو ہر وقت غصے میں شور شرابا نہیں کرتے۔کالم نگار رقمطراز ہے Americans are still unhappy with the state of the country, but their theory of change seems to have begun to shiftیعنی امریکی ابھی تک اپنے ملک کے حالات سے ناخوش ہیں مگر لگتا ہے کہ انکی تبدیلی لانے والی تھیوری بدل رہی ہے وہ اب ہیجان خیزی سے اکتا چکے ہیں اور وہ ان Soap Operas سے بھی بیزار آ چکے ہیں جو میڈیا ہر نیوز سائیکل میں پیش کرتا ہے۔اب تک کے نتائج کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کو سینٹ میں ایک سیٹ کی برتری حاصل ہے اور 435 نشستوں کے ایوان نمائندگان میں اس نے اب تک 204 اور ریپبلیکن پارٹی نے 211سیٹیں جیتی ہیں بیس سیٹوں کے انتخابی نتائج ابھی آنا باقی ہیں ریپبلیکن پارٹی نے اگر ہاؤس میں آٹھ دس سیٹوں کی برتری حاصل کربھی لی تو یہ کوئی بڑی کامیابی نہ ہوگی ڈیموکریٹس صرف اس بات پر خوش ہیں کہ سرخ لہر نہیں آئی مگر وہ یہ جانتے ہیں کہ ایوان نمائندگان میں اتنے MAGA امیدوار آ گئے ہیں کہ انہوں نے پورے ایوان کو سر پر اٹھا لینا ہے۔بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق ووٹروں نے MAGA امیداروں کے سامنے ایک ایسی دیوار کھڑی کر دی ہے جسے پھلانگ کر وہ امریکی جمہوریت کیلئے خطرہ نہیں بن سکتے۔ڈیوڈ بروکس نے لکھا ہے کہ اب ڈونلڈ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کیلئے سرمایہ نہیں رہا بلکہ وہ ایک بوجھ بن چکا ہے۔ کالم نگار کی رائے میں اگر ریپبلکن ٹرمپ سے نجات حاصل کر لیتے ہیں تو وہ زیادہ طاقتور ہو جائیں گے ڈیوڈ بروکس نے کالم کے اختتام میں لکھا ہے کہ Populist Authoritarianism اب بھی دنیا بھر میں ایک بڑی طاقت ہے مگر لوگ اب اس سے نجات پا کر ایک ایسی دنیابنانا چاہتے ہیں جسمیں قانون‘ اصول و ضوابط’عملیت پسندی‘ استحکام اور کردار کو زیادہ اہمیت حاصل ہو۔