ڈونلڈ ٹرمپ نے تیسری مرتبہ صدارتی امیدوار ہونیکا اعلان کر دیا ہے پہلی مرتبہ 2016 میں انہوں نے ہیلری کلنٹن کو شکست دیکر صدارت حاصل کی تھی پھر 2020 میں دوسری مدت صدارت حاصل کرنے میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب بڑے طمطراق اور تزک و احتشام کیساتھ انہوں نے ایک مرتبہ پھر انتخابی معرکے میں اترنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔اس اعلان نے امریکی سیاست میں ہلچل تو مچا دی ہے مگر اسے دھماکہ خیز اسلئے نہیں کہا جا سکتا کہ خلقت شہر کو پہلے ہی سے پتہ تھا کہ وسط مدتی انتخابات کے فوراً بعد ڈونلڈٹرمپ اپنی صدارتی مہم کا آغاز کر دیں گے۔ سابقہ صدر کئی مرتبہ کہہ چکے تھے کہ وہ 9 نومبر کے بعد ایک اہم اعلان کریں گے۔یہ بات ایک عام آدمی بھی جانتا تھا کہ یہ اہم اعلان کیا ہو سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اگر ایک کمزور امیدوار ہوتا تو اس انکشاف سے اٹھنے والے طلاطم نے دو چار دن میں دم توڑ دینا تھا اب ہو سکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ریپبلیکن پارٹی کا صدارتی ٹکٹ بھی حاصل کرنے میں ناکام رہیں مگر انہوں نے ایک ہنگامہ ضرور برپا کر دیا ہے۔ سیاسی بزر جمہروں کی باریک بینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے دو سال بعد ہونیوالے صدارتی معرکے پر خیال آرائی کا آغاز اس نکتے سے کیا ہے کہ یہ اعلان بر وقت تھا یا قبل از وقت۔ بعض پنڈت یہ خیال آرائی کر رہے ہیں کہ سابقہ صدر کو کچھ انتظار کرنا چاہئے تھا جب دوسرے امیدوار میدان میں اتر آتے تو پھر انہیں سامنے آنا چاہئے تھا۔اسکے جواب میں ڈونلڈٹرمپ کے مخالفین یہ کہہ رہے ہیں کہ انکے خلاف جو چار عدد سنجیدہ قسم کے مقدمات عدالتوں میں چل رہے ہیں انکے خلاف عوامی عدالت میں ایک نیا محاذ کھولنے کیلئے انہوں نے سوچ سمجھ کر یہ راستہ اختیار کیا ہے۔ اب وہ ہر روز یہ کہہ سکیں گے کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ وکٹم کارڈ تو پہلے ہی سے انکے ہاتھ میں تھا مگر اسے لہرانے کا موقعہ اسلئے نہ تھا کہ وسط مدتی انتخابات ہو رہے تھے اب اس رکاوٹ کے دور ہونے کے بعد انہوں نے سپاٹ لائٹ حاصل کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر بھی نہیں کی۔ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اعلان اتنا دور رس نتائج کا حامل تھا کہ اسکے فوراً بعد دو تین روزکے اندر درجن بھر طالع آ زماؤں نے صدارتی امیدوار ہونیکا اعلان کر دیا ہے۔ چند ہیوی ویٹ ایسے بھی ہیں جو صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کے مصداق اکھاڑے کے باہر ورزشی چغہ پہنے شیڈو باکسنگ کر رہے ہیں۔ اسے وارم اپ بھی کہا جا سکتا ہے ان میں سے ایک ڈونلڈ ٹرمپ کے سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو ہیں۔ دوسرے انکے نائب صدر مائیک پنس ہیں اور تیسری بھارتی نژاد ننکی ہیلی ہیں جو انکی مندوب برائے اقوام متحدہ رہ چکی ہیں۔ ان تینوں کے علاوہ فلوریڈا کے گورنر Ron Desantisبھی ہیں جو دوسری مرتبہ بھاری اکثریت سے گورنر شپ حاصل کرنے کے بعد مقبولیت کی دوڑ میں ڈونلڈ ٹرمپ کو پیچھے چھوڑتے ہوے نظر آ رہے ہیں۔ انکے ایک طاقتور حریف ہونیکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے آجکل انہیں نشانے کی زد پر لیا ہوا ہے۔ سابقہ صدر تضحیک آمیز لہجے میں کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہRon Desantis نے سیاست مجھ سے سیکھی ہے اور میں اسکے بارے میں اتنا کچھ جانتا ہوں کہ اسکی بیوی بھی نہیں جانتی۔Ron Desantis نے ابھی تک ٹرمپ کی اس طنز و تضحیک کا جواب نہیں دیا انکے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بڑے تحمل اور برد باری سے پیش قدمی کرتے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کے تمام مخالف صدارتی امیدواروں کا سب سے بڑا چیلنج سابقہ صدر کا فین کلب ہے۔ وہ ان ووٹروں کو مشتعل کرنے کی بجائے انکی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کئی سرویز کے مطابق ریپبلیکن پارٹی میں ڈونلڈ ٹرمپ کے پرستاروں کی تعداد تیس فیصد ہے‘ بیس فیصد ایسے ہیں جنہیں Never Trumper کہاجاتا ہے۔یہ لوگ کھلم کھلا سابقہ صدر کی مخالفت کرتے ہیں اور باقی کے پچاس فیصد انڈی پینڈنٹ ہیں جو کسی بھی امیدوار کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالفین خواہ کتنے ہی مقبول کیوں نہ ہوں۔ وہ تیس فیصد ووٹروں کا ایک Solid Block نہیں رکھتے۔ اسلئے وہ ٹرمپ کی مخالفت کر کے ان سے رابطے منقطع نہیں کرنا چاہتے۔اس موقع پر اہم ترین سوال یہ ہے کہ فین کلب کس حد تک اپنے ہیرو کاساتھ دیگا۔کیا انکا جوش و جذبہ اتنا ہی شدید ہے جتنا کہ 2016کے الیکشن میں تھا یا ٹرمپ کی صدارت کے دوران تھا یا انکے والہانہ پن میں کچھ کمی آئی ہے۔ ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارتی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ اگر نیویارک کے ففتھ ایونیو پر کسی کو گولی مار دیں تو انکے پرستار انکی حمایت سے دستبردار نہیں ہونگے۔
I could stand in the middle of fifth avenue and shoot somebody and would not lose any voters, okay.
یہ بات سابقہ صدر نے 2016 کی انتخابی مہم کے دورانIowa میں کہی تھی بعض تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ اب سابقہ صدر کے جاں نثاروں کے والہانہ پن میں کمی آ چکی ہے کیونکہ انکا ہیرو پچھلے تین انتخابات میں ڈیلیور نہیں کر سکا۔پہلے اس نے اپنی صدارت کے دوران 2018 میں وسط مدتی انتخابات میں ایوان نمائندگان کی بیالیس سیٹیں ہار دیں پھر اسے 2020 کے صدارتی انتخاب میں جوبائیڈن کے ہاتھوں شکست کھانا پڑی۔اب چند روز پہلے مڈ ٹرم الیکشن میں اس نے جتنے امیدوار کھڑے کئے تھے انکی اکثریت کامیاب نہ ہوسکی۔اسی لئے مخالفین ریپبلیکن پارٹی کی اس غیر متوقع شکست کی تمام تر ذمہ داری ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد کردہ کمزور امیدواروں پر ڈال رہے ہیں۔سابقہ صدر نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوے کہا ہے کہ اس شکست کی اصل وجہ سپریم کورٹ کی طرف سے اسقاط حمل کے قانون کی تنسیخ ہے۔ ریپبلیکن پارٹی کے تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ دونلڈ ٹرمپ کا فین کلب 2024 کا صدارتی الیکشن ہارنا نہیں چاہتا اسلئے وہ کسی ایسے امیدوار کو ووٹ نہیں دیگا جو تین انتخابات میں اچھے نتائج نہ دے سکا ہو۔ فین کلب اپنے ہیرو کو میدان میں یکہ و تنہا چھوڑتا ہے یا نہیں یہ فیصلہ جلدہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔