Brexit دو الفاظ کا مخفف ہے ان میں سے ایک Britain ہے اور دوسرا Exit ہے اسکا مطلب برطانیہ کی یورپی یونین سے علیٰحدگی ہے برطانوی عوام نے یورپی یونین سے اسلئے اپنی راہیں جدا کیں کہ انکے خیال میں اس کی پالیسیوں کی وجہ سے انکے ملک کی علاقائی سالمیت کو خطرات لاحق تھے یورپی یونین کے ممبر ممالک کے باشندے ویزے کے بغیر آ مدو رفت کر سکتے تھے جس کی وجہ سے برطانیہ میں جرائم بڑھ رہے تھے اسکے علاوہ برطانوی عوام کی رائے میں یورپی یونین میں شمولیت انکی معیشت کیلئے بھی نقصان دہ تھی اس تجارتی اتحاد میں رہنا یا اسے چھوڑ دینا ایک ایسا ہیجان خیز قومی مکالمہ تھا جو6 201 میں شروع ہوا اور ابھی تک جاری ہے برطانوی عوام میں یہ تاثر عام تھا کہ انکے ملک کی اسٹیبلشمنٹ اپنے مفادات کیلئے یورپی یونین میں شامل رہنا چاہتی تھی اس تنازعے کو حل کرنے کیلئے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے 23 جون 2016 کو ریفرنڈم کرایا جس میں 51.8 فیصد لوگوں نے بریگزٹ کے حق میں ووٹ دیا اور 48.2نے اسکی مخالفت کی اسکے بعد 31 جنوری2020 کو ایک نئے معاہدے کے تحت برطانیہ اور یورپی یونین کی راہیں جدا ہو گئیں اس علیٰحدگی کے نتیجے میں دیکھتے ہی دیکھتے برطانوی پاؤنڈ کی قیمت میں کمی ہو نے لگی‘ یورپی ممالک کی برآمدات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا‘ معیشت سست رفتار ہوئی اور افراط زر میں تیزی سے اضافہ ہواچاہیئے تو یہ تھا کہ اس ریفرنڈم کے بعد بریگزٹ کی بحث و تمحیص ختم ہو جاتی مگر ایسا نہ ہوا اس فیصلے کے حسن و قبح پر قومی مکالمہ جاری رہا 2016 سے 2020تک یہ بحث ہوتی رہی کہ یورپی یونین کیساتھ تجارتی معاہدے کی شرائط کیا ہونی چاہئیں اس کھینچا تانی میں چار وزیر اعظم تبدیل ہوئے۔
اب برطانیہ کی معاشی حالت اتنی دگر گوں ہو چکی ہے کہ YouGov سروے کے مطابق 56 فیصد لوگ کہہ رہے ہیں کہ بریگزٹ کا فیصلہ غلط تھا جبکہ32 فیصد ابھی تک اسے درست سمجھ رہے ہیں اس پشیمانی کو سنڈے ٹائمزآف لندن نے Bregret کا عنوان دیا ہے دو الفاظ پر مشتمل اس مخفف میں ایک لفظ Britain اور دوسرا Regret ہے جس کا مطلب پشیمانی ہے اس پشیمانی کی سب سے بڑی وجہ وہ معاشی بدحالی ہے جو گذشتہ چالیس برسوں میں دیکھنے میں نہیں آئی چند روز پہلے سنڈے ٹائمز آف لندن نے یہ انکشاف کیا کہ وزیر اعظم رشی سونک یورپی یونین کیساتھ تعلقات کی بحالی کا جائزہ لے رہے ہیں اس خبر کی تردید کرتے ہوے رشی سونک نے کہا کہ ”میں نے بریگزٹ کو ووٹ دیا میں بریگزٹ پر یقین رکھتا ہوں اور اس فیصلے نے جو فوائد اور مواقع پیدا کئے ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں“وزیر اعظم کے اس بیان کے رد عمل میں معاشی ماہرین نے کہا ہے کہ برطانیہ کے معاشی بحران کا حل یورپی ممالک کیساتھ ایک نیا تعلق استوار کرنے میں ہے اس تعلق کے خدو خال کیا ہوں گے اس سوال کا جواب دیتے ہوے Eurasia Group کے تجزیہ کار مجتبیٰ رحمٰن نے کہا ہے کہ یورپی یونین کے ساتھ نیا تعلق اس طرح کا بھی ہو سکتا ہے جس طرح کا سوئٹزر لینڈ اور ناروے کا یورپی یونین(EU) سے ہے یہ دونوں ممالک EU کے ممبر نہیں ہیں مگر اسے معاوضہ دے کر اورچند دوسری شرائط تسلیم کر کے اسکے ساتھ تجارت کرتے ہیں۔مجتبیٰ رحمٰن نے اس نئے تعلق کو نا گزیر قرار دیتے ہوے کہا کہ برطانیہ کی معیشت کو جو عوارض لاحق ہیں انکا علاج یورپی یونین کیساتھ تجارتی تعلقات میں بہتری لائے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔رشی سونک کے پیش کردہ بجٹ پر Office For Budget Responsibility کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ بریگزٹ نے برطانوی معیشت پر نمایاں طور پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں اسکی وجہ سے لیبر فورس میں کمی واقع ہوئی ہے جس نے ریسٹورنٹ‘ ہوٹل اور کنسٹرکشن بزنس کو متاثر کیا ہے بریگزٹ کے خلاف عوامی جذبات میں گذشتہ برس اسوقت اضافہ ہوا جب ٹرک ڈرائیوروں کی کمیابی کی وجہ سے گیس سٹیشنوں پر گیس نہ پہنچ سکی اور لمبی قطاریں لگ گئیں اسکے فوراً بعد افراط زراور انٹرسٹ ریٹ میں مزید اضافہ ہوا بینک آف انگلینڈکی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کساد بازاری دو سال تک جاری رہ سکتی ہے چند ماہ پہلے تک برطانوی معیشت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت تھی مگر اب اسکی جگہ انڈیا نے لے لی ہے برطانیہ کے معاشی بحران کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایکطرف حکمران ٹوری جماعت جس نے بڑی گھن گرج کیساتھ بریگزٹ کی حمایت کی تھی ابھی تک اپنے غلط فیصلے پر قائم ہے اور دوسری طرف یورپی یونین بھی برطانیہ کیساتھ سوئٹزر لینڈ طرز کا معاہدہ کرنے پر آ مادہ نہیں ہے اب معاشی ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ کسی بھی سیاسی نوعیت کے فیصلے کے صحیح یا غلط ہونے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ معیشت کو ترقی دے سکتا ہے یانہیں بریگزٹ کے معاشی اثرات کیونکہ نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں اسلئے اسے اب بریگرٹ کہا جا رہا ہے۔