عام تاثر یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان پر اسلئے سخت شرائط عائد کی ہوئی ہیں کہ امریکہ کو اسلام آباد کے بیجنگ کیساتھ تعلقات پسند نہیں ہیں اس تاثر کو غلط قرار دینا اسلئے مشکل ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے علاوہ دیگر عالمی مالیاتی ادارے بھی ہمیشہ سے امریکہ کے زیر اثر رہے ہیں۔چند سال پہلے تک امریکہ مالی مشکلات میں گھرے ہوئے ممالک کو Waiverدے کر انکی مدد کر دیا کرتا تھا مگر اب اسنے اس سخاوت سے ہاتھ کھینچ لئے ہیں۔ اسکا کہنا ہے کہ مقروض ممالک اس سے امداد لے کر چین کے قرض ادا کردیتے ہیں۔امریکہ کا یہ رویہ صرف پاکستان کیساتھ نہیں بلکہ ان تمام ممالک سے ہے جو چین کے مقروض ہیں۔دس برس پہلے تک امریکہ‘ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک قرض دینے والوں میں سر فہرست تھے مگر اب چین کے علاوہ بعض پرائیویٹ یورپی بینک بھی اس دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کو بھاری بھرکم شرح سود پر قرض دینا اب ایک ملٹی بلین ڈالر انڈسٹری بن چکا ہے۔ چین کے غریب ممالک کو دئے ہوئے قرضوں کی مالیت 500 ارب ڈالر بتائی جا تی ہے ان خوشحال ممالک اور انکے بینکوں نے غریب ممالک کا جتنا خون چوسنا تھا چوس لیا ہے اب لاطینی امریکہ‘ افریقہ اور ایشیا کے مقروض ممالک کے پاس قرض کی قسطوں کی ادائیگی کیلئے رقم نہیں ہے۔آئی ایم ایف کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اگلے سال درجن سے زیادہ ممالک کے ڈیفالٹ کرنے کا خطرہ ہے۔ان تمام ممالک کو اسوقت تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ کم شرح نمو‘ بڑھتے ہوئے انٹرسٹ ریٹ اور مضبوط ڈالر نے اپنے حصار میں لیا ہوا ہے۔ڈالر اسلئے مسلسل مضبوط ہو رہا ہے کہ امریکہ میں افراط زر حکومت کی کوشش کے باوجود کم نہیں ہو رہی۔ اکانومی اتنی Heat Up ہو چکی ہے کہ اسے ٹھنڈا کرنے کیلئے ایک سال سے مسلسل فیڈرل ریزرو بینک انٹرسٹ ریٹ بڑھا رہا ہے تا کہ کاروباری لوگ
قرض نہ لے سکیں اور معیشت کی تیز رفتاری میں کمی آ جائے۔ اس پالیسی کا دوسرے ممالک کو ایک نقصان یہ ہوا ہے کہ انہیں اپنے قرض ادا کرنے کیلئے بھاری شرح سود پر ڈالر خریدنا پڑ رہا ہے اور دوسرا نقصان یہ ہے کہ دنیا بھر کے سرمایہ دار اپنا سرمایہ امریکی بینکوں میں رکھ رہے ہیں کیونکہ یہاں انہیں اچھا ریٹرن مل رہا ہے۔
کونسل آن فارن ریلیشن کے تجزیہ نگار Brad Setser کی ایک رپورٹ کے مطابق غریب ممالک کی طرف اسوقت 200 بلین ڈالر واجب الادا ہے مغربی ممالک نے یہ قرض 2012 سے 2020 کے درمیان دیا تھا اب کیونکہ یہ ملٹی بلین ڈالر انڈسٹری ڈولٹی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اسلئے قرض دینے والے سود خور سر جوڑ کے بیٹھے ہوئے ہیں کہ اسے کیسے بچا یا جائے دس بارہ برس پہلے اس عالمی معاشی بحران کو ختم کرنا کوئی مسئلہ نہ تھا ان دنوں Debt Restructure کر کے مقروض ممالک کو ریلیف دے دی جاتی تھی مگر اب ایسا اسلئے نہیں کیا جا رہا کہ چین نے ان مغربی ساہوکاروں سے کہیں زیادہ قرض دیا ہوا ہے اسلئے آئی ایم ایف اور مغربی ممالک یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ چین بھی اپنے دئے ہوئے قرض کی شرائط کوRestructure کرے اس سے مراد یہ ہے کہ قرض کی میعاد بڑھا دے‘ انٹرسٹ ریٹ میں کمی کر دے اور واجب لادا رقم میں بھی تخفیف کر دے مگر مشکل یہ ہے کہ چین نے جن شرائط پر قرض دیا ہے اسمیں ایک شرط یہ ہے کہ وہ
اپنے قرض کو Restructure نہیں کریگا۔دو ہفتے قبل انڈونیشیا کے شہر بالی میں G-20 ممالک کی کانفرنس میں بھی چین کیساتھ اس مسئلے پر گفت و شنید کی گئی اس موقع پر مغربی مبصرین نے توجہ دلائی کہ رواں سال میں یوکرین جنگ اور Covid-19 کے عالمی معیشت پر اثرات کی وجہ سے غریب ممالک میں سو ملین سے زیادہ لوگ خط غربت سے نیچے جا چکے ہیں۔جی ٹونٹی کانفرنس میں زمبیا‘ گھانا‘ چڈ‘ ایتھوپیا اور سری لنکا کے معاشی مسائل زیر بحث آئے اور کہا گیا کہ ان ممالک کو تیل اور بجلی کے علاوہ خوراک کی کمی کا بھی سامنا ہے خوشحال ممالک کو قرض کی وصولی سے زیادہ یہ خدشہ لا حق ہے کہ اگر غریب ممالک میں غربت وا افلاس بڑھتا ہے تو وہاں سے لوگ مغربی ممالک کی طرف آنا شروع ہو جائیں گے امریکہ کی Treasury Secretary (وزیر خزانہ)Janet Yellen نے کہا ہے کہ مقروض ممالک کو Cordinated Debt Relief کی ضرورت ہے اور جب تک چین قرض کے اس مربوط پروگرام میں حصہ نہیں لیتا یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔چین کے وزیر خارجہ Wang Yi نے کہا ہے کہ مغربی ممالک اور انکے مالیاتی ادارے غریب ممالک کو ریلیف دینا نہیں چاہتے اسلئے وہ چین کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں وانگ یی نے کہا کہ ہم جتنی مدد کر سکتے ہیں کر رہے ہیں۔ مغربی میڈیا طویل عرصے سے کہہ رہا ہے کہ چین کی اپنی معیشت زیرو کووڈ پالیسی اور سخت لاک ڈاؤن کی وجہ سے سست روی کا شکار ہے اسکے علاوہ ریئل ا سٹیٹ مارکٹ کے بحران نے چین کی معیشت کو اتنا متاثر کیا ہے کہ وہ قرضوں میں چھوٹ نہیں دے سکتاقرضوں کی عدم ادائیگی کے بڑھتے ہوئے بحران پر قابو پانے کیلئے آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کا ایک چھ رکنی وفد اس ہفتے بیجنگ جائیگا تا کہ چین کو غریب ممالک کو دئے ہوئے قرضوں کی شرائط میں نرمی کرنے پر آ مادہ کیا جا سکے۔