چین سعودی عرب دوستی

جولائی میں صدر بائیڈن نے اس امید پر سعودی عرب کا دورہ کیا تھا کہ انکے میزبان تیل کی پیداوار میں اضافہ کر کے گرتی ہوئی عالمی معیشت کوسہارا دیں گے۔امریکہ میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس دورے کی سخت مخالفت کی تھی۔اس موقع پر نیوز میڈیا نے صدر بائیڈن کو یاد دلایا تھا کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں سعودی عرب کو عالمی سیاست میں تنہا کر دینے کا اعلان کیا تھا اس تند و تیز تنقید کے باوجود امریکی صدر نے اگر ریاض جانے کا فیصلہ کیا تو اسکی وجہ یہی تھی کہ اسوقت امریکہ میں گیس پانچ ڈالر فی گیلن کے لگ بھگ تھی اور اسمیں کمی کئے بغیر ڈیموکریٹک پارٹی نومبر میں مڈ ٹرم الیکشن نہ جیت سکتی تھی۔اس دورے کے بعد دو ماہ تک سعودی عرب نے تیل کی پیداوار میں معمولی سا اضافہ کیا مگر پھر اکتوبر میں اوپیک پلس کے اجلاس میں عرب ممالک نے روس کیساتھ ملکر تیل نکالنے میں کمی کا اعلان کر دیا۔ یہ فیصلہ کیونکہ امریکہ کے وسط مدتی انتخابات سے تین ہفتے پہلے کیا گیا تھا اسلئے امریکی میڈیا نے اسے Stab in the back قراردیا تھا۔اس صورتحال کو امریکہ سعودی عرب تعلقات کی نچلی ترین سطح کہا گیا لیکن اسکے بعد بھی بہت کچھ ہونا تھا ان دو پرانے اتحادیوں کے تعلق نے مزید شکست و ریخت سے گزرنا تھا۔ اب سات دسمبر کو چین کے صدر شی جن پنگ کا سعودی عرب میں شاندار استقبال‘ انکے قیام کے دوران تین سمٹ کانفرنسیں اور دونوں ممالک کے درمیان تزویراتی اور تجارتی معاہدوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ریاض نہ صرف امریکہ سے فاصلے بڑھانے پر آمادہ ہے بلکہ وہ مشرق وسطیٰ کی سیاست کوایک نئی سمت میں لے جانے کا اردہ بھی رکھتا ہے‘ بدھ کے دن شی جن پنگ کے جہاز کو لینڈ کرنے سے پہلے سعودی جیٹ طیاروں نے فضا میں سلامی دی۔ان جہازوں سے سرخ اور زرد رنگ کے چینی جھنڈے لہرا رہے تھے جمعرات کے دن جب چین کے صدر شاہی محل میں شہزادہ محمد بن سلیمان سے ملاقات کے لئے گئے تو انکی گاڑی کی رہنمائی کرنے والے گھوڑ سواروں نے چین اور سعودی عرب کے جھنڈے 
اٹھائے ہوئے تھے۔ اس استقبال کے بارے میں نو دسمبر کے نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے Upon arrival on Wednesday Mr Xi was met with a grander reception than Mr Biden received in July اس تین روزہ دورے میں صدر شی جن پنگ نے تین سمٹ کانفرنسوں میں تیس سے زیادہ سربراہان مملکت اور بین الاقوامی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹیوز سے ملاقاتیں کیں۔ان میں سے پہلی کانفرنس سعودی چین کانفرنس تھی، دوسری گلف ممالک اور چین کے درمیان اور تیسری عرب ممالک اور چین کے درمیان تھی۔ اتنی بڑی تعداد میں عرب ممالک کا چین سے قربت بڑھانا ظاہر کرتا ہے کہ وہ امریکہ کے رعونت آمیز رویے سے تنگ آ کر ایک ایسی عالمی طاقت سے تعلق استوار کرنا چاہتے ہیں جو انکے ساتھ برابر کی سطح پر لین دین کرنے کی خواہاں ہے۔بائیڈن انتظامیہ اور امریکی میڈیا نے چین اور عرب ممالک کی بڑھتی ہوئی قربت پر اسلئے حیرانگی کا اظہار نہیں کیا کہ وہ جانتے ہیں کہ واشنگٹن کی اب مشرق وسطیٰ کے معاملات میں پہلی جیسی دلچسپی نہیں رہی‘ امریکہ تیل کی پیداوار میں خود کفیل ہو چکا ہے۔اسے سعودی عرب کی ضرورت مڈ ٹرم الیکشن جیسے مواقع پر پڑتی ہے یا پھر عالمی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے اگر تیل کی قیمتوں میں کمی کا مرحلہ درپیش ہو تو وہ خلیجی ممالک سے تعاون کا مطالبہ کرتا ہے۔ بیس برس پہلے کے مڈل ایسٹ میں اسرائیل چاروں طرف سے متحارب عرب 
ممالک میں گھرا ہوا تھا۔ اسکی بقا کو یقینی بنانے کیلئے بھی امریکہ کو عرب ممالک پر اپنا اثر رسوخ استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی تھی۔ اب اسرائیل کا ناقابل تسخیر ہونا ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے‘ یروشلم کے حکمران مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کے تحفظ کیلئے کافی ہیں۔اسکے علاوہ چین کا کئی برسوں سے عرب ممالک سے تجارت بڑھانا بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں،ان حقائق کے علاوہ امریکہ چین کا مقابلہ مشرق وسطیٰ میں نہیں بلکہ بحرالکاہل کے ممالک اور جنوبی چین کے سمندرمیں کرنا چاہتا ہے۔یہ بات طے ہے کہ امریکہ اور چین میں اگر شو ڈاؤن ہوا تو وہ تائیوان کے مسئلے پر ہوگا۔ اس لئے امریکہ انڈو پیسیفک کے علاقے میں اثر رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دو ہفتے قبل نائب صدر کاملہ ہیرس فلپائن کے دورے پر گئی تھیں۔جہاں انہوں نے صدر فرڈی نینڈ مارکوس جونیئر سے نئی ملٹری Bases بنانے کی بات چیت کی۔عرب ممالک میں امریکہ کی عدم دلچسپی سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ واشنگٹن اس خطے کو مکمل طور پر چین کے حوالے کرنے پر آمادہ ہے۔ خلیجی ممالک میں امریکہ کے فوجی اڈے بھی قائم ہیں اور وہ ان سے اربوں ڈالر کی دو طرفہ تجارت بھی کرتا ہے۔سعودی عرب اب بھی اپنی دفاعی ضرویات کیلئے امریکہ پر انحصار کرتا ہے مگر امریکی رویے میں سرد مہری اور چین کی مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی دلچسپی اسے بیجنگ کی طرف مائل کر رہی ہے‘ سعودی عرب کے چین کی طرف جھکاؤ کی ایک وجہ یہ بھی ہے دنیا کثیرالقطبی ہو چکی ہے اور امریکہ اور برطانیہ کی طاقت اور کرو فر میں کمی کی حقیقت کو عالمی سطح پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان Mao Ning نے صدر شی جن پنگ کے دورہ سعودی عرب کے بارے میں کہا ہے کہ پیپلز ریپبلک آف چین کے قیام کے بعد یہ عرب ممالک کے ساتھ بیجنگ کا سب سے بڑا اور عہد ساز رابطہ ہے اور یہ ایک ایسا سنگ میل ہے جو چین عرب تعلقات کو ہمیشہ کے لئے تبدیل کر دیگا۔